برسلز میں تشدد کے بڑھتے واقعات، بیلجیئم فوج کو تعینات کرنے پر غور
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
بیلجیئم کے وزیرِ دفاع تھیو فرانکن نے کہا ہے کہ وہ سال کے اختتام سے قبل دارالحکومت برسلز کی سڑکوں پر فوجی اہلکار تعینات کر سکتے ہیں، کیونکہ حکومت پر پرتشدد جرائم اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے شدید دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق برسلز میں رواں سال اب تک تقریباً 60 فائرنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں سے ایک تہائی صرف گرمیوں کے مہینوں میں ہوئے، جن کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ ماہ وزیرِ داخلہ و سلامتی برنارڈ کوئنٹن نے اس صورتحال کو “تباہی” قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جرائم پیشہ گروہ مزید بے خوف اور منظم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ پولیس اور فوج کے مشترکہ گشت کے ذریعے برسلز کے “جرائم زدہ علاقوں” میں خوف اور نظم و ضبط کا اثر پیدا کیا جائے۔ ہفتے کے روز اخبار ’لے سوا‘ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ دفاع فرانکن نے کہا کہ انہیں فوج کی تعیناتی سے کوئی اعتراض نہیں، تاہم یہ اقدام قانونی طور پر جواز رکھتا ہو اور صرف بنیادی سیکیورٹی فرائض تک محدود ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا، “میں برسلز میں سیکیورٹی بڑھانے کے لیے ہمیشہ تیار ہوں۔ صورتحال اب نہ صرف سلامتی بلکہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے بھی سنگین ہو چکی ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، “سیکیورٹی پولیس کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر وزیرِ داخلہ درخواست کریں تو یہ دفاع کا کام بن جاتا ہے، کیونکہ فوج کا فرض ملک کا تحفظ ہے۔ کیا سال کے آخر سے پہلے فوج سڑکوں پر ہو سکتی ہے؟ میں نے ہاں نہیں کہا، مگر نہ بھی نہیں کہا۔” برسلز کے پبلک پراسیکیوٹر جولیئن موئنل کے مطابق، وسط اگست تک 57 فائرنگ کے واقعات ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 20 صرف گرمیوں میں پیش آئے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ “کوئی بھی شہری، کسی بھی وقت، بھٹکی ہوئی گولی کا نشانہ بن سکتا ہے”، جو دارالحکومت میں بڑھتے ہوئے تشدد کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ یورونیوز کی ایک حالیہ رپورٹ میں برسلز کو “یورپ کا گن کرائم دارالحکومت” قرار دیا گیا، جہاں زیادہ تر فائرنگ کے واقعات آندرلیخت اور مولن بیک جیسے علاقوں میں پیش آ رہے ہیں — یہ علاقے طویل عرصے سے گینگ سرگرمیوں اور منشیات کی اسمگلنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔
بیلجیئم کے قومی ادارۂ شماریات اسٹیٹ بیل (Statbel) کے مطابق، برسلز کی آبادی کا 46 فیصد غیر ملکی نژاد ہے (جن میں 27 فیصد یورپی یونین سے باہر کے ممالک کے ہیں)، جبکہ ملک کی مجموعی سطح پر یہ شرح صرف 18 فیصد ہے۔ حکام کے مطابق، یہ آبادیاتی تبدیلیاں شہر کے سماجی اور سیکیورٹی مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں۔