مغربی پابندیاں ناکام، روسی توانائی کی منڈی میں تسلسل برقرار

Russian Gas Russian Gas

مغربی پابندیاں ناکام، روسی توانائی کی منڈی میں تسلسل برقرار

ماسکو (صداۓ روس)
روسی توانائی برآمدات کو روکنے کی مغربی کوششیں منڈی کی حقیقتوں سے ٹکرا گئیں، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جمعرات کو روسی انرجی ویک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کی جانب سے روسی توانائی کی برآمدات کو روکنے کی پابندیوں پر مبنی مہم مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، اور ان ہی پابندیوں کا سب سے بڑا نقصان خود مغربی ممالک کو ہو رہا ہے۔ صدر پوتن کے اس بیان کے بعد توانائی پالیسی کے ماہرین نے اس معاملے پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا۔ معروف سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار فیصل الشمری نے روسی خبر رساں ادارے اسپوتنک سے گفتگو میں کہا کہ 2022 کے بعد سے مغرب کی توانائی پالیسی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ سیاسی مقاصد کس طرح منڈی کے اصولوں پر غالب آ سکتے ہیں۔

الشمری کے مطابق، ’’جو عالمی نظام پہلے باہمی انحصار اور مشترکہ مفاد پر قائم تھا، وہ اب پابندیوں، اخلاقی بیانیوں اور ہنگامی پالیسیوں کی بنیاد پر تقسیم ہو چکا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ روسی تیل کو عالمی منڈی سے مکمل طور پر خارج کرنا ایک غیر حقیقی سوچ ہے، کیونکہ روس دنیا کی تیل کی پیداوار کا 10 فیصد فراہم کرتا ہے، اور اگر یہ سپلائی رک جائے تو عالمی سطح پر شدید قیمتوں کے جھٹکے لگ سکتے ہیں۔ الشمری نے کہا کہ درحقیقت یہ ممکن ہی نہیں، کیونکہ تیل ایک عالمی اور قابلِ نقل و حمل شے ہے۔ پابندیوں کے نتیجے میں روسی برآمدات نے ایشیا خصوصاً چین اور بھارت کی طرف رخ کر لیا ہے۔ مغربی ممالک کے پاس اضافی پیداواری صلاحیت اور سرمایہ کاری دونوں کی کمی ہے، جبکہ قیمتوں کی حد بندی جیسے اقدامات غیر مؤثر ہو چکے ہیں کیونکہ تجارت ڈالر سے ہٹ کر متبادل مالیاتی نظاموں کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بالآخر روسی تیل کو سیاسی طور پر الگ تھلگ کرنے کی کوششیں منڈی کی حقیقت سے ٹکرا جاتی ہیں، کیونکہ توانائی کے بہاؤ کو نظریات نہیں بلکہ طلب متعین کرتی ہے۔‘‘

Advertisement

یورپ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری

الشمری کے مطابق خلیجی ممالک، چین اور بھارت جیسے غیر مغربی توانائی پیدا کرنے اور استعمال کرنے والے ممالک کے لیے مغرب کی یہ پالیسی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مغربی ریاستیں اب ردِعمل دینے والی اور غیر یقینی فیصلوں کی عادی بن چکی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’فیصلے اب داخلی سیاسی دباؤ اور نظریاتی مقاصد کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں، نہ کہ طویل المدتی توانائی سلامتی کے تقاضوں کے تحت۔‘‘ یہ غیر یقینی صورت حال مغربی شراکت داری پر اعتماد کو کمزور کر رہی ہے اور اس سے توانائی اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں متنوع راستوں، کرنسیوں اور اتحادیوں کی ضرورت نمایاں ہو گئی ہے۔ الشمری نے کہا، ’’نظریات حقیقت کے بغیر معیشت کو سہارا نہیں دے سکتے۔‘‘ انہوں نے توجہ دلائی کہ یورپ نے مہنگی درآمدات پر انحصار بڑھا دیا ہے، کوئلے کا دوبارہ استعمال شروع کر دیا ہے، جبکہ قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔