دمشق اور ماسکو کے درمیان روسی فوجی اڈوں کے مستقبل پر مذاکرات
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
شام کے عبوری وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی نے انکشاف کیا ہے کہ روس اور شام کے درمیان ماضی کی حکومت کے دور میں طے پانے والے فوجی معاہدوں پر نظرِثانی جاری ہے، جن میں روسی فوجی اڈوں سے متعلق معاہدے بھی شامل ہیں۔ سرکاری ٹی وی الاخباریہ شام کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ’’روس کے ساتھ تعلقات کا آغاز بتدریج ہوا تھا، لیکن فی الحال دونوں ممالک کے درمیان کوئی نیا معاہدہ نافذ العمل نہیں ہے۔ ان کے بقول پچھلے دورِ حکومت میں طے پانے والے معاہدوں کو ہم نے قبول نہیں کیا اور وہ معطل ہیں۔ ابھی تک ہم کسی نئے سمجھوتے پر نہیں پہنچے۔ اس وقت روسی فوجی اڈوں کا معاملہ مذاکرات کا حصہ ہے اور ان کے کردار پر نظرِثانی ہو رہی ہے۔
الشیبانی نے مزید کہا کہ یہ طے کرنا ضروری ہے کہ روس کی موجودگی کس نوعیت کی ہوگی، اگر وہ برقرار رہی تو کس دائرے میں۔ ان کے مطابق، روسی اڈوں سے متعلق یہ تمام امور ماسکو میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں زیرِ بحث آئے، جس میں شامی عبوری صدر احمد الشراع نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے پہلی بار ملاقات کی۔
یاد رہے کہ 15 اکتوبر کو صدر الشراع نے روس کا ورکنگ دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے ماسکو کے ساتھ تعلقات کو ’’نئے سرے سے شروع‘‘ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا. روس اس وقت شام میں دو فوجی تنصیبات رکھتا ہے — ایک بحری اڈہ طرطوس میں اور دوسرا فضائی اڈہ حمیمیم میں، جو لاذقیہ سے 20 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ طرطوس کا بحری اڈہ 1971 میں سوویت یونین کے دور میں ایک دوطرفہ معاہدے کے تحت قائم کیا گیا تھا، جب کہ 2015 میں روس نے دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف شامی فوج کی مدد کے لیے فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں۔ دوسری جانب، روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے 13 اکتوبر کو عرب ممالک کے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام روسی فوجی اڈوں کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ انہیں ’’نئے حالات‘‘ کے تحت مختلف نوعیت کے کاموں کے لیے استعمال کیا جائے۔