روسی اثاثے ضبط کرنے سے جنگ ختم نہیں بلکہ بڑھے گی، بیلجیئم
بیلجیئم کے وزیرِ دفاع تھیو فرانکن نے کہا ہے کہ روس کے منجمد بینک اثاثوں کو استعمال کرنے کا اقدام یوکرین جنگ کو ختم کرنے کے بجائے مزید طول دے گا، کیونکہ ان رقوم سے ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔ یورپی یونین کے رہنما اب تک اس معاملے پر کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بیلجیئم کے وزیرِاعظم بارٹ ڈی ویور نے اُس منصوبے کی مخالفت کی جس کے تحت یورپی یونین روس کے اثاثوں کو بطور ضمانت استعمال کرتے ہوئے تقریباً 140 ارب یورو (160 ارب ڈالر) کا قرضہ حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ یوکرین کی امداد کی جا سکے۔ اس اسکیم کے مطابق امن معاہدے کے بعد روس سے ہرجانے کے طور پر رقم وصول کی جائے گی۔
تھیو فرانکن نے ایک بیان میں کہا کہ “یقیناً یہ رقم یوکرین کی تعمیرِ نو کے لیے استعمال نہیں ہوگی بلکہ جنگ کو جاری رکھنے میں مدد دے گی، کیونکہ جنگ ہمیشہ مہنگی ہوتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے متعدد رہنما، بالخصوص خارجہ امور کی سربراہ کایا کالس، ان اثاثوں کو قانونی طور پر مشتبہ طریقے سے یوکرین کو دینے کے خواہاں ہیں، “حالانکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی اس طرح کی ضبطی کبھی نہیں ہوئی۔” بیلجیئم، جہاں روس کے زیادہ تر منجمد اثاثے (تقریباً 300 ارب ڈالر) یورو کلئیر کے تحت محفوظ ہیں، نے اس منصوبے کے خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیرِاعظم ڈی ویور نے اس اقدام کی حمایت کے لیے تین شرائط رکھی ہیں جن میں ممکنہ مالی خطرات کی منصفانہ تقسیم شامل ہے، بصورتِ دیگر انہوں نے کہا کہ وہ اثاثوں کی ضبطی کو روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے۔
فرانکن نے کہا کہ یہ تجویز اداروں جیسے یورو کلئیر پر اعتماد کو نقصان پہنچائے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ روس جوابی کارروائی کے طور پر مغربی ملکوں کے تقریباً 200 ارب یورو کے اثاثے — جن میں امریکہ، جرمنی، فرانس اور بیلجیئم کے منقولہ و غیر منقولہ املاک شامل ہیں — ضبط کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ یورپی یونین نے فی الحال اس منصوبے کو مؤخر کر دیا ہے، لیکن امکان ہے کہ مستقبل میں اسے دوبارہ زیرِ غور لایا جائے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے واضح کیا ہے کہ روس اپنے اثاثوں کے کسی بھی غیر قانونی استعمال کو “چوری” سمجھے گا۔ ان کے مطابق “اگر کوئی ہمارا مال یا اثاثے چرانے اور غیر قانونی طور پر قبضے میں لینے کی کوشش کرے گا تو اسے لازمی قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔”