جرمنی کی معیشت تباہی کے دہانے پر، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یورپ کے معروف معاشی تحقیقی ادارے ’ایفو انسٹیٹیوٹ‘ (ifo Institute) کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ جرمنی کی معاشی زوال پذیری اب “ڈرامائی” صورت اختیار کر چکی ہے۔ ادارے کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2018 سے اب تک ملک کی معاشی پیداوار (GDP) تقریباً جمود کا شکار ہے اور متعدد حکومتی کوششوں کے باوجود صورتحال میں بہتری نہیں آ سکی۔ میونخ میں قائم اس ادارے کے صدر کلیمنز فوئسٹ (Clemens Fuest) نے جرمن اخبار ’بلڈ‘ سے گفتگو میں کہا کہ جرمنی اس وقت “اطالوی طرز” کے معاشی حالات سے دوچار ہونے کے قریب ہے، جو ایک اصطلاح ہے جو معیشت کی طویل مدتی کمزوری، جمود اور ساختی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے — جیسا کہ برسوں سے اٹلی کی معیشت کے ساتھ منسلک ہے۔ فوئسٹ کے مطابق، “جرمنی کئی برسوں سے معاشی زوال کا شکار ہے، اور اب صورتحال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔ نجی سرمایہ کاری میں کمی کا مطلب ہے کم ترقی، کم ٹیکس آمدن اور بالآخر عوامی خدمات کے لیے کم وسائل۔” ان کا کہنا تھا کہ اس معاشی زوال کا اثر پہلے ہی لاکھوں جرمن شہریوں کی زندگی کے معیار میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے، اور اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو ملک کو آئندہ 25 سال تک جاری رہنے والا معاشی بحران درپیش ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2015 سے اب تک حکومت کے اخراجات پنشن، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر 25 فیصد تک بڑھ چکے ہیں، جبکہ کارخانوں اور مشینری میں نجی سرمایہ کاری 2015 کی سطح سے نیچے گر گئی ہے۔ فوئسٹ نے حکومت سے چھ ماہ کے اندر ایک “جامع اصلاحاتی منصوبہ” تیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس میں پنشن کے نظام میں تبدیلی اور چھوٹی و درمیانی کمپنیوں کے لیے کاغذی کارروائی کم کرنے جیسے اقدامات شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کاربن اخراج، سپلائی چینز اور کم از کم اجرت سے متعلق غیر ضروری ضوابط ختم کر دیے جائیں تو معیشت میں سالانہ 146 ارب یورو (170 ارب ڈالر) تک کا اضافی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، جرمنی کی معیشت 2023 میں 0.3 فیصد سکڑنے کے بعد 2024 میں بھی مزید سکڑ گئی، جو کہ 2000 کی دہائی کے اوائل کے بعد پہلا مسلسل دو سالہ زوال ہے۔ توانائی کے بڑھتے اخراجات — جو روسی گیس پر پابندیوں کے بعد سامنے آئے — کو اس معاشی بحران کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جرمن چانسلر فریڈرک مرٹز نے رواں سال اگست میں تسلیم کیا تھا کہ ملک ایک “ساختیاتی بحران” سے دوچار ہے اور کئی بڑے صنعتی شعبے “مکمل طور پر مسابقت سے باہر” ہو چکے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ’ایفو‘ انسٹیٹیوٹ دونوں نے پیش گوئی کی ہے کہ 2025 میں بھی جرمنی کی معاشی ترقی کی شرح تقریباً صفر (0.2 فیصد) رہے گی، یعنی ملک کی مجموعی معاشی سرگرمی جمود کا شکار ہی رہے گی۔