سعودی عرب کو ایف-35 طیاروں کی ممکنہ فروخت، پینٹاگون کی اہم منظوری حاصل
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکی ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کی جانب سے جدید ترین ایف-35 لڑاکا طیارے خریدنے کی درخواست پر پیش رفت کرتے ہوئے ایک اہم پینٹاگون منظوری حاصل کرلی ہے۔ اگر یہ سودا طے پا گیا تو یہ اربوں ڈالر مالیت کا معاہدہ ہوگا جو مشرقِ وسطیٰ میں عسکری توازن کو بدل سکتا ہے اور اسرائیل کی “معیاری عسکری برتری” کے امریکی وعدے کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دے گا۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے رواں سال کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہِ راست رابطہ کر کے 48 ایف-35 طیاروں کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔ امریکی دفاعی حکام نے تصدیق کی ہے کہ معاملہ اب وزارتِ دفاع کی اعلیٰ سطح پر پہنچ چکا ہے، تاہم حتمی منظوری سے قبل کابینہ، صدر اور کانگریس کی توثیق درکار ہوگی۔ پینٹاگون، وائٹ ہاؤس اور محکمۂ خارجہ نے تاحال اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے، جبکہ لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin) کمپنی — جو ایف-35 کی تیاری کرتی ہے — نے کہا ہے کہ یہ حکومتوں کے درمیان طے پانے والا معاملہ ہے۔
امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں ہتھیاروں کی فروخت اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ اسرائیل کی عسکری برتری برقرار رہے۔ اسرائیل تقریباً ایک دہائی سے ایف-35 طیارے چلا رہا ہے اور خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس یہ جدید ترین اسلحہ نظام موجود ہے۔ سعودی عرب — جو امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے — کئی برسوں سے ایف-35 حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ اپنی فضائیہ کو جدید خطوط پر استوار کرے اور ایران سمیت خطے کے خطرات کا مقابلہ کرسکے۔ موجودہ تجویز کے تحت دو اسکواڈرن طیارے خریدنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ٹرمپ انتظامیہ ریاض کے ساتھ دفاعی تعاون کو مزید گہرا کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے سعودی عرب کے ساتھ 142 ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں، جسے وائٹ ہاؤس نے تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی تعاون قرار دیا۔
اگرچہ معاہدہ ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن ماہرین کے مطابق کانگریس میں اس کی منظوری ایک چیلنج بن سکتی ہے کیونکہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کئی اراکینِ کانگریس ریاض کے ساتھ عسکری روابط پر تحفظات رکھتے ہیں۔ یہ ممکنہ سودا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے “وژن 2030” پروگرام کے تحت دفاعی و معاشی جدیدیت کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، جس کے ذریعے مملکت نہ صرف اپنی عسکری صلاحیت میں اضافہ چاہتی ہے بلکہ واشنگٹن کے ساتھ طویل المدتی سکیورٹی تعلقات کو برقرار رکھتے ہوئے دفاعی تنوع بھی حاصل کرنا چاہتی ہے۔