1917 کا بولشویک انقلاب — جب لینن نے تاریخ کا دھارا بدل دیا

Vladimir Lenin Vladimir Lenin

1917 کا بولشویک انقلاب — جب لینن نے تاریخ کا دھارا بدل دیا

ماسکو(صداۓ روس)
1917ء کے آغاز میں روسی سلطنت بظاہر محاذِ جنگ پر مستحکم نظر آتی تھی۔ اسلحے اور گولہ بارود کی کمی ختم ہو چکی تھی، فوج کو مطلوبہ رسد باقاعدگی سے پہنچ رہی تھی، اور اتحادی طاقتیں (اینتانتے) جرمنی کے خلاف حتمی حملوں کی تیاری میں مصروف تھیں۔ لیکن ملک کے اندرونی حالات روز بروز بگڑ رہے تھے، جنہوں نے بالآخر ایک عظیم انقلابی طوفان کو جنم دیا۔ محاذ پر کامیابیوں کے باوجود اندرونِ ملک صورتِ حال نہایت خراب تھی۔ ریلوے نظام مفلوج ہو چکا تھا — دو تہائی ریل گاڑیاں صرف فوجی سامان کی ترسیل کے لیے استعمال ہو رہی تھیں، اور اوورلوڈنگ کی وجہ سے اکثر خراب ہو جاتیں۔ مرمت کے لیے افرادی قوت اور وسائل کی شدید کمی تھی کیونکہ زیادہ تر صنعتیں جنگی پیداوار میں مصروف تھیں۔ اس باعث شہروں میں غذائی قلت پیدا ہو گئی۔ خوراک کا بحران 1916ء کی سردیوں میں شدت اختیار کر گیا۔ اناج کی خریداری مہم ناکام رہی، اور کسانوں نے غلے کی فراہمی سے گریز کرتے ہوئے اسے کالے بازار میں مہنگے داموں فروخت کرنا شروع کر دیا۔ شہری دکانداروں نے بھی اجناس ذخیرہ کر لیں۔ اس سے شہروں میں بدامنی اور بھوک پھیل گئی۔

جنگ کے تیسرے سال تک عوامی تھکن انتہا کو پہنچ گئی۔ محنت کش طبقے اور کسانوں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ 1915ء میں چھ لاکھ اور 1916ء میں بارہ لاکھ سے زائد مزدوروں نے ہڑتالیں کیں۔ دیہات میں بھی بغاوتیں پھوٹ پڑیں — صرف 1916ء میں تقریباً 290 کسان بغاوتیں ہوئیں۔ اس بدترین سماجی و معاشی بحران کے دوران روسی حکومت خود شدید سیاسی بحران کا شکار ہو چکی تھی۔ دربار میں گریگوری رسپوتین نامی ایک مذہبی شخص کا زار نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا فیودورونا پر غیر معمولی اثر و رسوخ تھا۔ رسپوتین نے خود کو ولی عہد الیکسی کے علاج اور زار کی بادشاہت کے استحکام کے لیے “خدا کا نمائندہ” قرار دیا ہوا تھا۔ رسپوتین کے زیرِ اثر زار نے 1915ء میں فوج کی کمان خود سنبھالی، مگر اس کے نتیجے میں وزارتی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔ ستمبر 1915ء سے فروری 1917ء تک 24 وزارتی تبدیلیاں ہوئیں، اور تین مرتبہ وزرائے اعظم تبدیل کیے گئے۔ دربار، بیوروکریسی اور فوج میں بدعنوانی اور انتشار نے حکومت کی ساکھ مکمل طور پر ختم کر دی۔ درباری خاندان کے اندر بھی سازشیں اور بغاوت پنپنے لگیں۔ زار کے اپنے قریبی رشتہ داروں نے رسپوتین اور ملکہ کے اثر و رسوخ کے خلاف منصوبہ بنایا، جس کا انجام دسمبر 1916ء میں رسپوتین کے قتل پر ہوا۔

Advertisement

1917ء کے آغاز پر جب پیٹروگراڈ (سابق سینٹ پیٹرز برگ) میں روٹی کی شدید قلت پیدا ہوئی، تو عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ جنوری اور فروری میں “روٹی کی قطاریں” میلوں لمبی ہو گئیں۔ 17 فروری کو پوتیلوف فیکٹری کے مزدوروں کو اجرت بڑھانے کے مطالبے پر برخاست کیا گیا، جس کے بعد عام ہڑتال نے پورے دارالحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 23 فروری تک نعرے صرف مزدور حقوق تک محدود نہیں رہے، بلکہ سیاسی رنگ اختیار کر گئے — “جنگ بند کرو!” اور “آمریت مردہ باد!” یہی وہ لمحہ تھا جب روسی سلطنت کا تخت لرز اٹھا، زار نکولس دوم کی حکومت چند دنوں میں ختم ہو گئی، اور عظیم روسی انقلاب نے جنم لیا — جس نے نہ صرف روس بلکہ دنیا کے سیاسی نقشے کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔

بولشویک انقلاب 1917ء کا ایک فیصلہ کن تاریخی واقعہ تھا جس کی قیادت ولادیمیر لینن نے کی۔ اس انقلاب کے نتیجے میں روس کی عبوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور دنیا کی پہلی کمیونسٹ ریاست — سوویت یونین — کی بنیاد رکھی گئی۔ لینن کی سیاسی بصیرت، حکمتِ عملی، اور انقلابی نظریات نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

انقلاب کے مراحل

1917ء کے دوران یہ انقلاب دو بنیادی مراحل میں رونما ہوا

فروری انقلاب
یہ ایک خود رو عوامی بغاوت تھی جو پہلی عالمی جنگ میں روسی فوج کی بھاری جانی نقصان اور خوراک کی شدید قلت کے باعث اٹھی۔ عوامی دباؤ کے تحت زار نکولس دوم کو تخت چھوڑنا پڑا اور صدیوں پر محیط شاہی نظام ختم ہوگیا۔ اس کے بعد ایک عبوری لبرل حکومت قائم ہوئی، مگر وہ عوام کے بنیادی مطالبات — جنگ کے خاتمے، زمین کی منصفانہ تقسیم، اور معاشی بہتری — کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔

اکتوبر انقلاب (نومبر گریگورین کیلنڈر کے مطابق
لینن اور ان کی بولشویک پارٹی نے عبوری حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا۔ 6 سے 8 نومبر 1917ء کو بولشویکوں کے زیرِ قیادت سرخ محافظوں (Red Guards) نے دارالحکومت پیٹروگراڈ میں ایک تقریباً بے خون بغاوت کے ذریعے سرکاری عمارتوں اور ونٹر پیلس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد نئی حکومت — کونسل آف پیپلز کمسارز — کا قیام عمل میں آیا، جس کے سربراہ لینن خود بنے۔

لینن کی انقلابی جدوجہد

انقلاب سے قبل اور دوران لینن کی کئی حکمتِ عملیاں کامیابی کا بنیادی سبب بنیں:

نظریاتی قیادت اور تنظیم سازی
لینن نے مارکسی نظریے کو ایک عملی شکل دی جسے بعد میں “لینن ازم” کہا گیا۔ ان کا نظریہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ انقلاب کی قیادت ایک منظم، نظم و ضبط رکھنے والی “پیش رو جماعت” (Vanguard Party) کرے جو محنت کش طبقے کی رہنمائی کرے۔ لینن نے برسوں کی جدوجہد کے بعد بولشویک پارٹی کو ایک متحد اور طاقتور قوت میں بدل دیا۔

نعرہ “امن، زمین اور روٹی
اپریل 1917ء میں جلاوطنی سے واپسی پر لینن نے اپنے مشہور “اپریل تھیسز” جاری کیے، جن میں عبوری حکومت کے فوری خاتمے اور جنگ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا۔ ان کا نعرہ “امن، زمین اور روٹی” (Peace, Land, and Bread) جنگ سے تھکے سپاہیوں، زمین کے خواہشمند کسانوں، اور بھوکے مزدوروں میں غیر معمولی طور پر مقبول ہوا۔

اقتدار پر قبضے کی حکمتِ عملی
لینن نے مسلح بغاوت کو لازمی قرار دیا اور پارٹی کی مرکزی کمیٹی کو اس فیصلے پر قائل کیا۔ انقلاب کی منصوبہ بندی “پیٹروگراڈ سوویت” کی فوجی انقلابی کمیٹی کے تحت ہوئی جس کی قیادت لیون ٹراٹسکی نے کی۔

اقتدار کے بعد اقدامات
اقتدار حاصل کرنے کے فوراً بعد لینن نے متعدد فرمان جاری کیے، جیسے:

امن کا فرمان (Decree on Peace): روس کو پہلی عالمی جنگ سے نکالنے کے لیے جرمنی سے مذاکرات (معاہدہ بریسٹ لِٹوسک)۔

زمین کا فرمان (Decree on Land): تمام زمینوں کی قومی تحویل اور ان کی تقسیم کسانوں میں۔

ساتھ ہی لینن نے چی کا (Cheka) کے نام سے ایک خفیہ پولیس قائم کی تاکہ سیاسی مخالفین کو سختی سے کچلا جا سکے — یہ دور بعد میں سرخ دہشت (Red Terror) کہلایا۔

انقلاب کے نتائج

انقلاب کے بعد روس میں تین سالہ خانہ جنگی (1918-1920ء) چھڑ گئی جس میں لینن کے حامی سرخ فوج (Red Army) کا مقابلہ غیر بولشویک قوتوں (White Armies) سے ہوا جنہیں غیر ملکی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ بالآخر لینن کی قیادت میں سرخ فوج نے فتح حاصل کی اور 1922ء میں سوویت یونین (USSR) کے قیام کا اعلان کیا گیا — جو دنیا کی پہلی کامیاب سوشلسٹ ریاست تھی۔