پاکستان میں غربت، معاشی عدم استحکام اور مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی

Pakistan’s poverty Pakistan’s poverty

پاکستان میں غربت، معاشی عدم استحکام اور مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ دی

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
تقریباً دو دہائیوں تک پاکستان نے غربت کے خلاف جدوجہد میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کیں۔ 2001 سے 2018 تک ملک کی مجموعی غربت 64 فیصد کی بلند ترین شرح سے گھٹ کر 22 فیصد تک آگئی۔ اس نمایاں کمی کے پیچھے غیر رسمی معیشت میں مزدوروں کی آمدنی میں اضافہ اور زراعت سے کم ہنرمند خدمات کے شعبے کی جانب منتقلی جیسے عوامل شامل تھے۔ لاکھوں افراد غربت کی لکیر سے اوپر آئے اور ملک میں امید کی لہر پیدا ہوئی۔ مگر یہ مثبت سفر چند برسوں سے رفتار کھو بیٹھا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں الٹ سمت اختیار کر گیا ہے، جیسا کہ حالیہ ’’پاکستان: غربت، برابری اور لچک پر مبنی جائزہ‘‘ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ غربت سے نکلنے والے کروڑوں افراد جن ملازمتوں پر انحصار کر رہے تھے، وہ زیادہ تر غیر رسمی، کم اجرت اور کم پیداواری صلاحیت کی حامل تھیں۔ 2011 سے 2021 تک غریب طبقے کی حقیقی اجرت میں صرف 2 تا 3 فیصد اضافہ ہوا، جس سے خاندانوں کے لیے اقتصادی ترقی کے ثمرات حاصل کرنا مشکل رہا۔ 2018 تک 14 فیصد آبادی انتہائی کمزور حیثیت میں تھی، یعنی غربت کی لکیر سے ذرا اوپر، جہاں کسی بھی جھٹکے سے دوبارہ غربت میں جانے کا خطرہ موجود تھا۔

پاکستان کی غربت میں کمی کی رفتار 2015 کے بعد نمایاں طور پر سست پڑ گئی۔ 2001 سے 2015 تک غربت کی شرح سالانہ اوسطاً 3 فیصد کم ہو رہی تھی، لیکن 2015 سے 2018 کے دوران یہ رفتار ایک فیصد سالانہ سے بھی کم رہ گئی۔ 2020 کے بعد شروع ہونے والے مسلسل بحرانوں نے غربت میں کمی کی کہانی کی کمزور بنیادوں کو آشکار کر دیا۔ کووِڈ–19 نے صحت اور معیشت دونوں پر شدید ضرب لگائی، خاص طور پر غیر رسمی شعبے پر، جو 85 فیصد پاکستانیوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ لاکھوں افراد بیروزگار ہوئے، آمدن میں کمی آئی اور شہری غریب سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ قومی غربت کی شرح بڑھ کر 24.7 فیصد تک پہنچ گئی۔

Advertisement

معاشی عدم استحکام اور مہنگائی نے خریداری کی طاقت کو مزید ختم کر دیا۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا، لاکھوں مکانات تباہ ہوئے اور بے شمار خاندانوں کے روزگار ختم ہوگئے۔ اندازوں کے مطابق مزید 1 کروڑ 30 لاکھ افراد غربت میں دھکیلے گئے، جس سے 2023–24 میں غربت کی شرح 25.3 فیصد تک پہنچنے کا خطرہ پیدا ہوا۔ غریب طبقے پر اثر سب سے زیادہ ہوا، تقریباً ہر تیسرے غریب گھرانے نے براہِ راست نقصان کی اطلاع دی۔

لیکن آفات محض ایک وجہ تھیں۔ اصل مسئلہ ساختی کمزوریاں ہیں جنہوں نے لاکھوں خاندانوں کو شدید غیر محفوظ بنا دیا۔ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ طویل عرصے سے کھپت پر مبنی ترقی، کم سرمایہ کاری اور بار بار آنے والے معاشی بحرانوں پر مشتمل رہا ہے۔ اگرچہ کھپت نے جی ڈی پی کو مسلسل سہارا دیا، لیکن نجی سرمایہ کاری جمود کا شکار رہی۔ بڑھتے ہوئے قرض اور مالیاتی دباؤ نے ریاست کی لوگوں اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کی صلاحیت محدود کر دی۔

اسی کے ساتھ عوامی خدمات کی نامکمل اور غیر متوازن تقسیم نے مقامی سطح پر خدمات کی فراہمی کو کمزور کیا۔ خراب انفراسٹرکچر، خصوصاً خستہ حال سڑکیں، کم آمدوری طبقوں کی صحت، تعلیم اور روزگار تک رسائی کو شدید متاثر کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر سکول پانچ کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہو تو لڑکیوں کے سکول سے باہر ہونے کا امکان لڑکوں کے مقابلے میں 76 فیصد زیادہ ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے کاروباری اعتماد اور سرمایہ کاری کو دبا دیا، جبکہ عدم مساوات کا ڈھانچہ برقرار رہا۔

غربت میں کمی کے برسوں میں بھی مواقع کی عدم مساوات جوں کی توں رہی۔ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگ غربت کی حد سے ذرا اوپر موجود رہے۔ وسائل کی کمی نے انہیں متوسط طبقے میں داخل ہونے سے روکے رکھا اور کسی بھی معاشی یا ماحولیاتی جھٹکے نے ان کی سالوں کی محنت کو الٹ کر رکھ دیا۔ معیاری تعلیم، صحت اور موزوں ملازمتوں سے محرومی نے ان کی معاشی لچک کمزور ہی رکھی۔