قومی اسمبلی سے 27ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور
اسلام آباد (صداۓ روس)
قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیمی بل اور اس سے منسلک اضافی ترامیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا، جس کے بعد عدلیہ کے ڈھانچے، اختیارات اور تقرری کے نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اس بل کے حق میں 234 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں صرف 4 ووٹ آئے۔ بل کی منظوری سے قبل وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ سے منظور شدہ 27ویں آئینی ترمیم میں 6 اضافی ترامیم پیش کیں، جنہیں ایوان نے منظور کر لیا۔ ان ترامیم کے ذریعے آئین کی 50 شقوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کے چیف جسٹس کا تقرر تین سال کے لیے کیا جائے گا جبکہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی حد 68 سال مقرر کی گئی ہے۔ عدالت کے قیام کا مقصد آئینی تنازعات اور آئین کی تشریح کے امور کو باقاعدہ ایک علیحدہ فورم پر منتقل کرنا بتایا گیا ہے۔ آرٹیکل 6 کی شق 2اے میں ترمیم کے ذریعے “عدالت عظمیٰ” اور “عدالتِ عالیہ” کے ساتھ “وفاقی آئینی عدالت” کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح آرٹیکل 10 سمیت دیگر پانچ شقوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کے کردار کو واضح کیا گیا ہے، جس کے تحت اب چیف جسٹس آئینی عدالت اور سپریم کورٹ، دونوں میں سب سے سینیئر جج ہوں گے۔ ترمیم کے مطابق صدرِ مملکت، چیف الیکشن کمشنر اور اٹارنی جنرل سے حلف لینے کے مجاز بھی چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔
آئین کے آرٹیکل 175-اے میں ترمیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی گئی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اب کمیشن کے رکن ہوں گے۔ دونوں عدالتوں کے ایک ایک سینیئر جج بھی اس کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ کمیشن کی سربراہی دونوں میں سے سینیئر جج کریں گے جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے نامزد کیے جانے والے رکن کے لیے دو سالہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔ ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 184 کو حذف کر کے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس (سوموٹو) کے اختیار کو ختم کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 200 میں ترمیم کے بعد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں کے لیے نیا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔ اب ججز کے تبادلے صدرِ مملکت جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر کریں گے۔ آرٹیکل 239 میں ایک نئی شق شامل کی گئی ہے، جس کے تحت آئین میں کی گئی کسی ترمیم کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔
بل کی منظوری کے دوران ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج اور نعرے بازی دیکھی گئی۔ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی، چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان، اور ثنا اللہ مستی خیل نے حکومت کی پالیسیوں کو آئین اور جمہوریت کے خلاف قرار دیا اور ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ “یہ ترمیم جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف اور غیر جمہوری قوتوں کے ساتھ ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ عوام کی حکمرانی کا راستہ بند کیا جا رہا ہے۔”
چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ان کی جماعت کو ایوان سے باہر رکھنے کی سازش کی جا رہی ہے اور ان کے کارکنوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم عدلیہ اور آئین میں “استحکام” اور “واضح تقسیمِ اختیارات” کے لیے ضروری تھی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ “آرٹیکل 239 کے تحت آئین بنانے اور اس میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ آئینی عدالت کو آئین دوبارہ لکھنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔” ترمیم کی منظوری کے بعد اب یہ بل دوبارہ سینیٹ کو بھجوایا جائے گا تاکہ اضافی ترامیم کی توثیق کی جا سکے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم ملک کی عدالتی اور آئینی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ از خود نوٹس کے خاتمے اور وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے نہ صرف سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی آئے گی بلکہ آئینی تنازعات کے حل کے لیے ایک نیا فورم تشکیل پائے گا۔ دوسری جانب اپوزیشن نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاج کی حکمتِ عملی تیار کر رہی ہے۔