بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شيخ حسينہ کو انسانيت کے خلاف جرائم پر سزائے موت
بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبیونل نے آج سابق وزیراعظم شيخ حسينہ کو 2024ء کے طالب علموں کی قیادت میں ہونے والے بڑے احتجاج کے دوران تشدد آمیز کریک ڈاؤن سے متعلق انسانيت کے خلاف جرائم کے تمام پانچ الزامات میں مجرم قرار دے کر انہیں موت کی سزا سنائی ہے۔ یہ فیصلہ ڈھاکہ کی عدالت میں پیر کے دن سنایا گیا، جہاں شيخ حسينہ غائب تھیں اور ان کا مقدمہ ان کی عدم موجودگی میں چلایا گیا۔ عدالت نے ان کی سابق وزیرداخلہ اسد الزمان خان کمال کو بھی موت کی سزا سنائی، جبکہ سابق پولیس چیف چوہدری عبد اللہ الِمامون کو پانچ سال کی قید کی سزا دی گئی، جو تفتيش میں تعاون کرنے اور قصور کا اعتراف کرنے پر اسے ملکی وٹنیس بنایا گیا تھا۔ الِمامون واحد ملزم تھے جو سزا سننے کے لیے عدالت میں موجود تھے۔
شيخ حسينہ، جو 15 سال تک بنگلہ دیش کی حکمرانی کر چکی تھیں، نے احتجاج کے دوران تشدد کا حکم دینے سے انکار کیا ہے اور میڈیا انٹرویوز میں کہا ہے کہ یہ سب محمد یونس کی قائم کردہ عبوری حکومت کی کارستانی ہے، جنہوں نے تشدد کی اجازت دی۔ حسينہ نے فیصلے کو “سیاسی انتقام” قرار دیا اور ٹریبیونل کو “کینگرو عدالت” کہا۔ بنگلہ دیشی قانون کے مطابق، غائب ملزم 30 دن کے اندر گرفتار ہونے یا خود کو پیش کرنے کی صورت میں ہی اپیل دائر کر سکتی ہیں۔ حسينہ مئی 2024ء میں ہنگاموں کے بعد ہیلکاپٹر سے بھارت فرار ہو گئی تھیں اور اب وہاں جلاوطن حیثیت سے رہ رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے بھارت سے ان کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے، جہاں 2013ء کا ایکسٹریڈیشن معاہدہ موجود ہے، البتہ سیاسی جرائم کی صورت میں اسے روکا جا سکتا ہے۔
یہ مقدمہ 2024ء کے جولائی ماہ میں شروع ہونے والے طالب علموں کے احتجاج سے جڑا ہے، جو بے روزگاری، معاشی مسائل اور حسينہ کی آمرانہ حکمرانی کے خلاف اٹھے تھے۔ احتجاج “جولائی انقلاب” کے نام سے مشہور ہوئے، جس میں پولیس اور فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ یونائیٹڈ نیشنز اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں اس تشدد کی مذمت کر چکی ہیں، جبکہ عدالت نے حسينہ کو ڈرونز، ہیلی کاپٹرز اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا حکم دینے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چیف پروسیکیوٹر تجول اسلام نے فیصلے کو “انسانيت کے خلاف جرائم کا خاتمہ” قرار دیا، جبکہ عبوری چیف ایڈوائزر محمد یونس نے کہا کہ “کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں”۔
فیصلے کے بعد ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں سخت سیکورٹی کی گئی، جہاں پولیس اور فوج تعینات تھی۔ حسينہ کے والد شيخ مجيب الرحمان کے محل کو مسمار کرنے کی کوششوں کے دوران مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئیں، جس میں کئی زخمی ہوئے۔ عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جہاں وکلاء اور متاثرین کے خاندانوں نے عدالت کے باہر نعرے لگائے۔ البتہ، ہیومن رائٹس گروپس نے غائب مقدمے اور موت کی سزا پر تحفظات کا اظہار کیا، کہتے ہوئے کہ یہ بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ بھارتی وزارت خارجہ نے فیصلے کو “نوٹ کیا” ہے، مگر واپسی پر خاموشی اختیار کی۔
یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی سیاست میں اہم موڑ ہے، جہاں عوامی لیگ کو انتخابات سے روک دیا گیا ہے اور فروری 2026ء میں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ عبوری حکومت کی جوابدہی کی کوشش ہے، مگر یہ مزید انتشار کا باعث بھی بن سکتا ہے، خاص طور پر مذہبی انتہا پسندی اور سیاسی دباؤ کے تناظر میں۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل ہو رہی ہے، جہاں لوگ انصاف کی فتح اور سیاسی انتقام دونوں پر بحث کر رہے ہیں۔
Tags (Urdu):