دوسری جنگِ عظیم میں سوویت آبدوزوں کا کردار
ماسکو(صداۓ روس)
جون 1941 میں آپریشن بارباروسا کے آغاز پر سوویت یونین دنیا کا سب سے بڑا آبدوز بیڑا رکھتا تھا۔ اس کے پاس اس وقت 218 آپریشنل آبدوزیں تھیں—ایک ایسا عدد جو جنگ کے ابتدائی مہینوں میں کسی بھی ملک سے زیادہ تھا۔ مگر اس بڑی تعداد کے باوجود سوویت آبدوزوں کی مجموعی مؤثریت محدود رہی، جس کی کئی اہم وجوہات تھیں: مشکل جغرافیائی ماحول، حکمتِ عملی کی کمزوریاں، تجربہ کار عملے کی کمی، اور جنگ کا زمینی محاذ پر انتہائی زیادہ دباؤ۔
سوویت آبدوزیں چار اہم بحری بیڑوں میں تقسیم تھیں: پیسفک فلیٹ، بلیک سی فلیٹ، بالٹک فلیٹ،، نادرن فلیٹ
ان بیڑوں میں مختلف قسم کے ڈیزائن اور صلاحیتوں کی آبدوزیں شامل تھیں:
M-Class (مالیوٹکا): چھوٹی ساحلی آبدوزیں، تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ (100 سے زائد تیار کی گئیں)۔
Shch-Class (شچوکا): درمیانی سائز کی گشتی آبدوزیں، 1941 میں 84 تیار حالت میں تھیں—سوویت بیڑے کی ریڑھ کی ہڈی۔
S-Class (سریدنیا): جرمن ڈیزائن پر مبنی درمیانی آبدوزیں، دشمن کے سب سے زیادہ ٹننِج غرق کرنے کے حوالے سے کامیاب ترین۔
L-Class (لیننٹس): بارودی سرنگ بچھانے والی آبدوزیں۔
K-Class (کرویزرسکایا): بڑی کروز آبدوزیں، بھاری ہتھیاروں کے ساتھ—ریڈ فلیٹ کی سب سے طاقتور آبدوزیں۔
1. جغرافیائی چیلنجز، بالٹک سمندر، جہاں آبدوزوں کا بڑا حصہ تعینات تھا، انتہائی کم گہرائی، جرمن و فِن لینڈ کے خوفناک آبدوز مخالف جال، اور گھنے بارودی میدانوں
کی وجہ سے “قید خانہ” بن چکا تھا۔ کئی آبدوزیں بندرگاہوں سے نکلنے تک سے محروم رہیں۔
2. حکمتِ عملی کی حدود، سوویت بحری حکمتِ عملی دفاعی نوعیت کی تھی۔ بحری تجارت کے خلاف جرمن U-boats یا امریکی آبدوزوں جیسی عالمی سطح کی کارروائیاں سوویت ترجیح نہیں تھیں۔ ان کا بنیادی کردار زمینی محاذ کے ساحلی حصوں کی حمایت تھا۔
3. تربیت کی کمی، 1930 کی دہائی کے ’’اسٹالن ازم‘‘ کے دوران ہونے والی گریٹ پرج نے تجربہ کار افسروں اور انجینیئرنگ عملے کی بڑی تعداد کو ختم کر دیا۔
جنگ کے آغاز پر عملے کی مہارت اور کمانڈ تجربہ دونوں کمزور تھے، جس کا نتیجہ ابتدائی برسوں میں بھاری نقصان کی صورت میں نکلا۔
اہم کارروائیاں اور تاریخی وراثت: سوویت آبدوزوں نے جنگ کے آخری برسوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ سب سے اہم واقعہ:
جرمن جہاز Wilhelm Gustloff کا غرق ہونا تھا— ، سوویت آبدوز S-13 نے تاریخ کا سب سے بڑا بحری جانی نقصان پیدا کیا۔ اس ایک حملے میں تقریباً 7 ہزار افراد ہلاک ہوئے، جن میں فوجی، اہلکار اور مہاجر شامل تھے۔ جنگ کے دوران سوویت آبدوز بیڑے کا مجموعی سائز بہت زیادہ تھا جس میں 100 سے زائد آبدوزیں شامل تھیں۔
اس کے باوجود، بہادری، تکنیکی بہتری، اور آخری برسوں کی سرگرمیاں اس بات کا ثبوت تھیں کہ سوویت آبدوز فورس مستقبل میں ایک بڑا عالمی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جنگ کے تجربات نے بعد از جنگ دور میں سوویت یونین کو دنیا کا سب سے طاقتور اور جدید سب میرین نیٹ ورک تشکیل دینے میں مدد دی، جو بالآخر سرد جنگ میں امریکہ کے برابر کھڑا ہوا۔