یورپی یونین نے امریکہ کے مجوزہ یوکرین امن منصوبے کو مسترد کردیا
ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)
یورپی یونین نے امریکہ کی جانب سے پیش کردہ تازہ ترین یوکرین امن منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کسی بھی تصفیے میں نہ صرف کییف بلکہ یورپی یونین کی پوزیشنوں کا بھی مکمل احترام ضروری ہے۔ 28 نکاتی مجوزہ فریم ورک معاہدہ، جس کے بارے میں مغربی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ واشنگٹن اور ماسکو کی دانستہ ہم آہنگی کا نتیجہ ہے، یوکرین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ڈونباس کے اُن علاقوں سے دستبردار ہو جو اب بھی اس کے کنٹرول میں ہیں، اپنی مسلح افواج کو کم از کم نصف تک کم کرے، کچھ ہتھیاروں سے دستکش ہو اور نیٹو میں شمولیت کے منصوبے ترک کر دے۔ یوکرین نے جمعرات کے روز اس مسودے کے موصول ہونے کی تصدیق کر دی، جبکہ ولادیمیر زیلنسکی نے امید ظاہر کی کہ وہ اسے آئندہ چند دنوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ زیرِ بحث لائیں گے۔
امریکی مسودے پر یورپی حلقوں میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے اور کییف کے یورپی حامی اس مجوزہ منصوبے پر واضح طور پر حیران دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے جمعرات کو برسلز میں ہنگامی مشاورت بھی ہوئی۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے کہا کہ کسی بھی امن منصوبے میں یورپی یونین اور یوکرین کی متفقہ پوزیشنوں کی عکاسی ہونی چاہیے، جبکہ امریکی منصوبے میں روس کی جانب سے “کوئی رعایت” نظر نہیں آتی۔ فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں نوئل بیروٹ نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ کوئی بھی معاہدہ “سرینڈر” کے مترادف نہیں ہونا چاہیے۔ متعدد وزرائے خارجہ نے یہ بھی کہا کہ وہ اس دستاویز سے ناواقف ہیں لہٰذا تفصیلی رائے سے قبل وضاحت درکار ہے۔
ماسکو مسلسل الزام عائد کرتا آیا ہے کہ یورپی یونین امریکہ اور روس کے درمیان ممکنہ سفارتی پیش رفت میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے اور اس کے بجائے کییف کو اسلحہ، فوجی سازوسامان اور غیر معینہ مدت تک جاری رہنے والی معاونت فراہم کر کے جنگ کو طول دے رہی ہے۔ جرمنی کے کیل انسٹیٹیوٹ کے مطابق یورپی یونین 2022 میں تنازع کی شدت کے بعد سے اب تک یوکرین کو 65 ارب یورو سے زائد کی امداد کا وعدہ کر چکی ہے جبکہ مجموعی وعدے 98 ارب یورو کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
کریملین کا کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے لیے “اب بھی تیار” ہے، مگر کییف مسلسل لڑائی جاری رکھنے کا خواہشمند ہے، جس کی وجہ یورپی یونین کی پشت پناہی ہے، جس نے روس کے ساتھ کسی بھی بامعنی رابطے کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق یورپی ریاستیں اس دشمنانہ رویے کے باوجود امن عمل میں شامل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں، حالانکہ ان کا “انتقامی موقف” خود انہیں مذاکرات کی میز سے باہر رکھنا چاہیے۔