نسلوں کے درمیان امن کا سفر — رستوف فورم میں عالمی نقطۂ نظر کا احوال
رستوف آن ڈان (اشتیاق ہمدانی)
رستوف آن ڈان کا یہ دن روس کی نوجوان نسل، تعلیمی اداروں اور بین الاقوامی مہمانوں کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا۔ شہر کی فضا میں ایک سنجیدگی، وقار اور تاریخ کا احترام محسوس ہو رہا تھا۔ روس کے اس جنوبی خطے میں بین الاقوامی فورم «Миротворчество поколений в исторической памяти российского государства» منعقد ہوا، جس میں روسی ریاست کی تاریخی یادداشت، نسلوں کے مابین امن کے پیغام اور آج کے نوجوان کی ذمہ داریوں پر بھرپور گفتگو ہوئی۔ اسی فورم میں مجھے، ایک پاکستانی صحافی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا، جو میرے لئے نہ صرف اعزاز تھا بلکہ روس-پاک تعلقات کے تناظر میں ایک اہم سفارتی لمحہ بھی۔
فورم کی میزبانی رستوف اسٹیٹ یونیورسٹی آف ریلوے ٹرانسپورٹ (RSUPS) نے کی، جس کی وسیع عمارت اس دن بین الاقوامی شرکاء سے بھری ہوئی تھی۔ ہال میں سینکڑوں نوجوان، اساتذہ، سماجی کارکنان اور حکومتی اداروں کے نمائندے موجود تھے۔ افتتاحی نشست میں ریکٹر ولادیمیر دمتریویچ ویریسکون نے تاریخی حوالوں سے یہ بات واضح کی کہ روس میں امن اور بین النسلی ہم آہنگی کوئی سیاسی نعرہ نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ایک فکری روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اپنی تاریخ سمجھنی ہوگی تاکہ وہ آنے والے عالمی چیلنجوں کا سامنا ذمہ داری سے کر سکیں۔
روسی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بھی خصوصی پیغام دیا گیا، جسے وزارت کے شعبۂ نئے خطرات و چیلنجز کے سیکریٹری یاروسلاو کازانسکی نے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ عالمی ماحول میں ہائبرڈ جنگ، فیک نیوز اور غلط معلومات نوجوانوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہیں، اور یہی نوجوان مستقبل کی سفارت کاری، میڈیا اور عالمی امن کے اصل محافظ بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتیں مختلف خطوں میں افواہوں، جعلی ویڈیوز اور پروپیگنڈے سے ریاستوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اور یہ روس اور پاکستان دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
ایک پاکستانی صحافی کی حیثیت سے میں نے اس فورم کو جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی بھرپور دلچسپی سے دیکھا۔ پاکستان اور روس دونوں ممالک نے عالمی تنازعات میں امن، باہمی احترام اور گفتگو کی روایت اپنائی ہے۔ پاکستان میں بھی نوجوان نسل کو نفرت انگیز پروپیگنڈے، جعلی خبروں اور سیاسی تقسیم کے خلاف فکری مضبوطی کی ضرورت ہے۔ روس میں منعقد ہونے والے اس فورم نے مجھے یہ احساس دلایا کہ تاریخ کا فہم صرف قوموں کو مضبوط نہیں کرتا بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ روس اس معاملے میں نوجوانوں کو جو پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے وہ دنیا کے لئے ایک ماڈل ہو سکتا ہے۔
فورم کی سرگرمیاں دن بھر جاری رہیں۔ مختلف سیشنز میں ماہرین نے روس کے تاریخی واقعات، عظیم محاذِ جنگ، شہداء کی قربانیوں، امن کی کوششوں اور جنگ کے بعد کی تعمیر کی تاریخی مثالوں پر گفتگو کی۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے دستاویزی پریزنٹیشنز پیش کیں جن میں روسی خاندانوں کی یادداشتیں اور تاریخی ورثے کو محفوظ کرنے کے جدید طریقے شامل تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ روس کی نوجوان نسل نہ صرف اپنی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے بلکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے مستقبل کے منصوبے بھی تشکیل دے رہی ہے۔
فورم کے شرکاء کو شہر کے اہم تاریخی مقامات کا دورہ بھی کرایا گیا۔ سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب ہم نے ’’گمنام سپاہی‘‘ کی یادگار پر پھول رکھے۔ اس یادگار پر کھڑے ہو کر یہ احساس شدت سے ابھرتا ہے کہ قومیں اپنے شہداء کے خلوص اور ایثار پر زندہ رہتی ہیں۔ روس میں ان یادگاروں کا احترام محض رسمی نہیں بلکہ اجتماعی شعور کا حصہ ہے۔ پاکستان میں بھی شہداء کی قربانیاں قومی وقار کا اہم ستون ہیں، اور اس پہلو نے دونوں ثقافتوں کو ایک نکتے پر لا کھڑا کیا: امن کبھی تحفے میں نہیں ملتا، اسے نسلوں کی قربانیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
اسی دوران ہمیں رستوف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا دورہ بھی کرایا گیا، جہاں مقامی کاروباری رہنماؤں نے بتایا کہ کس طرح نوجوانوں کو معاشی و صنعتی شعبوں میں نئی ذمہ داریاں دی جا رہی ہیں۔ یہاں گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ امن صرف بندوقوں کے سائے میں نہیں بلکہ معیشت کے استحکام، ذہنی امن اور سماجی ہم آہنگی میں بھی پوشیدہ ہے۔ ایک پاکستانی صحافی کے طور پر میں نے محسوس کیا کہ روسی ادارے عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے میں نوجوان نسل کو مرکزی حیثیت دے رہے ہیں، جو پاکستان-روس مستقبل کے اقتصادی تعاون کے لئے بھی اہم پیغام ہے۔
فورم کے اختتام پر ’’امن کے نام‘‘ کے عنوان سے ایک شاندار کنسرٹ پیش کیا گیا۔ رستوف کے اسکولوں اور کالجوں کے بچوں نے گیت، روایتی رقص اور ڈرامائی ریڈنگ پیش کیں۔ ان کے چہروں پر اعتماد، ملک سے محبت اور امن کی خواہش جھلک رہی تھی۔ یہ وہ لمحات تھے جب میں نے محسوس کیا کہ دنیا کے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، امن کا حقیقی سفیر ہمیشہ نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ روس کا یہ ثقافتی رنگ، موسیقی، فن اور تاریخ کا امتزاج عالمی زبان میں ایک ہی پیغام دیتا ہے: مستقبل کے دروازے امن سے کھلتے ہیں۔
فورم کے دوران میری کئی روسی صحافیوں، اساتذہ اور حکومتی نمائندوں سے گفتگو ہوئی۔ انہوں نے پاکستان کے بارے میں مثبت خیالات کا اظہار کیا اور اس بات میں دلچسپی ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے میڈیا، تعلیمی ادارے اور نوجوان کس طرح مشترکہ پروگراموں پر کام کر سکتے ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ پاکستان بھی بین الاقوامی سطح پر امن، علاقائی روابط، اور نوجوانوں کے کردار پر یقین رکھتا ہے۔ رستوف میں ہونے والا یہ فورم دونوں ملکوں کے درمیان ذہنی قربت میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ فورم محض ایک تقریب نہیں تھا، بلکہ نسلوں کے درمیان مکالمے، ثقافتی احترام، اور عالمی امن کے شعور کی ایک مضبوط مثال تھا۔ یہاں بیٹھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ عالمی حالات چاہے جیسے ہوں، مستقبل ان ہی نسلوں کے ہاتھ میں ہے جو تاریخ سے سیکھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے اس فورم میں پاکستان کی نمائندگی کی اور روس کی نوجوان نسل کی امن کے لئے سنجیدہ کوششوں کو قریب سے دیکھا۔
رستوف آن ڈان کی یہ فضا، تعلیمی اداروں کا جذبہ، نوجوانوں کا اعتماد اور شہداء کے احترام کا وہ لمحہ — سب کچھ دل پر گہرا تاثر چھوڑ کر رخصت ہوا۔ بطور پاکستانی صحافی، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس فورم نے نہ صرف روسی معاشرے کی حقیقی روح دکھائی بلکہ پاکستان کے لئے بھی کئی سیکھنے کے دروازے کھولے۔