روسی پلیٹ فارمز پر پاکستان کی واضح آواز — اشتیاق ہمدانی کی گفتگو کو پذیرائی
روستوف (صداۓ روس)
پاکستانی صحافی اور صدائے روس کے چیف ایڈیٹر اشتیاق ہمدانی کی حالیہ گفتگو نے خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال، اطلاعاتی جنگ، سفارتی چیلنجز اور روس–پاکستان تعاون کے نئے امکانات پر گہری روشنی ڈالی ہے۔ اشتیاق ہمدانی نے ان خیالات کا اظہار رستوف آن ڈان میں ۴ روزہ فورم کے مختلف سیشنز، بین الاقوامی فورمز اور متعدد روسی و غیر ملکی میڈیا ہاؤسز سے بات چیت کے دوران کیا، جہاں انہوں نے خطے میں پھیلتی غلط معلومات اور پروپیگنڈے کے بڑھتے ہوئے رجحانات پر شدید تشویش ظاہر کی۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں میڈیا کا کردار فیصلہ کن ہوتا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جھوٹی خبروں، غلط بیانی اور پروپیگنڈے کی یلغار بھی شدید ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس اور پاکستان کے درمیان باہمی بھروسہ، براہِ راست سفارتی رابطے اور ثقافتی تبادلے اس منفی مہم کا مؤثر جواب ثابت ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے اس سلسلے میں اس تحقیقی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس میں بتایا گیا تھا کہ بعض بین الاقوامی عناصر مسلسل غلط معلومات پھیلا کر ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان روابط کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک تفصیلی تجزیہ حال ہی میں شائع ہوا ہے جس میں ایسے دعوؤں کے محرکات اور اس کے سفارتی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
https://sadaerus.com/indian-fake-news-onslaught-why-is-delhi-trying-to-bring-moscow-and-islamabad/
اپنے مزید بیان میں اشتیاق ہمدانی نے بتایا کہ حالیہ ہفتوں میں مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستانی اور روسی ماہرین کے درمیان کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں جن میں افغانستان میں استحکام، وسطی ایشیا کی صورتحال اور سیاسی بیانیوں پر میڈیا کے اثرات پر گہری گفتگو ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض ممالک ایک مخصوص نقطۂ نظر دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔
اشتیاق ہمدانی نے کہا کہ وہ روس میں بطور پاکستانی صحافی عالمی سیمینارز، فورمز اور پریس ٹورز میں پاکستان کا مؤثر نقطۂ نظر پیش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق روسی میڈیا کے ساتھ مضبوط رابطے پاکستان کے مثبت، حقیقت پسندانہ اور متوازن چہرے کو مضبوطی سے نمایاں کر رہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ “پاکستان اور روس کے درمیان تعلقات میں موجود گرمجوشی ایک نئے دور کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ آنے والے برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلیم، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، تجارت اور ثقافتی تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔”