ملتان سکھر موٹروے سے اغوا کی وارداتیں، عوام کے لیے دردِ سر
اسلام آباد (صداۓ روس)
ملتان سکھر موٹروے (ایم ۵) پر کچے کے ڈاکوؤں کی طرف سے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں مسافروں کے لیے ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہیں، جو علاقائی سیکورٹی خدشات کو اجاگر کرتی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں ستمبر ۲۰۲۵ء میں صادق آباد کے قریب نواز آباد علاقے میں تنویر اندھر گروپ نے متعدد گاڑیوں سے دس افراد کو اغوا کر لیا تھا، جو پنجاب میں اس موٹروے پر کچے گروہوں کی براہ راست رسائی کی پہلی بڑی مثال تھی۔
اس کے بعد سے رحیم یار خان اور راجن پور کے سرحدی علاقوں میں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں، جہاں مسافر بسوں اور نجی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پولیس کے مطابق رواں سال کچے کے علاقوں سے اغوا کی متعدد وارداتیں رپورٹ ہوئیں، جن میں سے کئی ایم ۵ موٹروے کے قریب پیش آئیں۔ ان وارداتوں میں ڈاکو مسافروں کو اسلحے کے زور پر روک کر کچے میں لے جاتے ہیں اور تاوان مانگتے ہیں۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ موٹروے پر سفر کے دوران سیکورٹی کا فقدان ان کے لیے مسلسل خوف کا باعث ہے۔
حکام نے ان وارداتوں کے پیش نظر رات کے اوقات میں حفاظتی قافلے تعینات کر دیے ہیں۔ رحیم یار خان پولیس کی طرف سے ہر آدھے گھنٹے بعد پولیس پک اپ گاڑیوں کی قیادت میں قافلے روانہ کیے جا رہے ہیں تاکہ مسافروں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ تاہم ماہرین اور مسافروں کا مطالبہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر سیکورٹی اقدامات کیے جائیں، جیسے بھونگ انٹرچینج کی تعمیر مکمل کرنا، جو سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود تاخیر کا شکار ہے۔
یہ صورتحال جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کے سرحدی علاقوں میں کچے کے ڈاکوؤں کی طویل عرصے سے جاری سرگرمیوں کی عکاسی کرتی ہے، جو اغوا، ڈکیتی اور تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ پولیس نے کئی کارروائیوں میں مغویوں کو بازیاب کروایا ہے، لیکن مسافروں کے لیے موٹروے کا سفر اب بھی خطرناک تصور کیا جا رہا ہے۔ حکام سے اپیل کی جا رہی ہے کہ جامع حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ یہ درد سر ختم ہو سکے اور مسافروں کو محفوظ سفر کی ضمانت دی جا سکے۔