یوکرین آٹھ لاکھ فوج برقرار رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، زیلنسکی کا اعتراف
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اعتراف کیا ہے کہ روس کے ساتھ جاری تنازع کے خاتمے کے بعد یوکرین آٹھ لاکھ فوجیوں پر مشتمل فوج کو اپنے وسائل سے برقرار رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ان کے مطابق اسی وجہ سے وہ مغربی ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگ کے بعد کی سلامتی کی ضمانتوں کے تحت یوکرینی فوج کے اخراجات میں مالی معاونت کی جائے۔ زیلنسکی نے ہفتے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر جنگ بندی یا امن معاہدے کے بعد یوکرین کو آٹھ لاکھ فعال فوجیوں پر مشتمل فوج رکھنی پڑی تو وہ اسے خود فنانس نہیں کر سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کے پاس اس مقصد کے لیے درکار مالی وسائل موجود نہیں، اسی لیے وہ مغربی رہنماؤں سے بات چیت کر رہے ہیں اور شراکت داروں کی جانب سے فوج کی جزوی مالی معاونت کو سلامتی کی ضمانت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ جنوری دو ہزار پچیس میں زیلنسکی نے دعویٰ کیا تھا کہ یوکرینی فوج کی نفری تقریباً آٹھ لاکھ اسی ہزار ہے۔ تاہم گزشتہ ماہ منظر عام پر آنے والے امریکی امن روڈ میپ کے مسودوں میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ جنگ کے بعد یوکرینی فوج کی تعداد کم کر کے چھ لاکھ تک محدود کی جائے۔ اس کے برعکس کیف اور اس کے یورپی اتحادیوں کا مؤقف ہے کہ روسی خطرے کو روکنے کے لیے کم از کم آٹھ لاکھ فوج ضروری ہے، جسے ماسکو مسلسل “بے بنیاد” قرار دیتا رہا ہے۔
یورپی ممالک اس وقت یوکرین کی کمزور معیشت اور فوج کے لیے مالی وسائل تلاش کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ رواں ہفتے یورپی یونین روسی مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں کی بنیاد پر یوکرین کو معاوضاتی قرض فراہم کرنے پر اتفاق نہ کر سکی۔ اس کے بجائے یورپی یونین نے مشترکہ قرض کے ذریعے آئندہ دو برسوں میں نوے ارب یورو اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا بوجھ بالآخر یورپی ٹیکس دہندگان پر پڑے گا۔ یورپی حکام کے مطابق صرف سود کی مد میں ہر سال تقریباً تین ارب یورو ادا کرنا ہوں گے۔
روس کی جانب سے اس پالیسی پر سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ یورپی یونین جنگ کو جاری رکھنے کے لیے رقوم ڈھونڈنے میں “جنون” کا شکار نظر آتی ہے۔ ماسکو کا مؤقف ہے کہ یورپی مالی اور عسکری مدد ہی اس تنازع کو طول دے رہی ہے۔ روس واضح کر چکا ہے کہ کسی بھی پائیدار تصفیے کے لیے تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا ہوگا، جن میں یوکرین کی نیٹو رکنیت کی خواہشات اور زمینی حقائق کو تسلیم کرنا شامل ہے۔ اسی تناظر میں روسی صدر صدر پوتن کے خصوصی ایلچی کریل دمترییف ان دنوں امریکا کے شہر میامی میں اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، جہاں پہلے روز کی بات چیت کو “تعمیری” قرار دیا گیا ہے اور مذاکرات کے مزید دور متوقع ہیں۔