سیکورٹی خدشات: ایئربس گوگل کلاؤڈ سے الگ ہوگئی
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یورپی ایرو اسپیس کارپوریشن ایئربس نے اہم ڈیجیٹل سسٹمز کو گوگل کی کلاؤڈ سروسز سے منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کمپنی کے ایگزیکٹوز کے مطابق یہ اقدام سیکورٹی اور ڈیٹا خودمختاری کے خدشات کی بنیاد پر اٹھایا گیا ہے، جو امریکی دائرہ اختیار سے حساس صنعتی معلومات کے تحفظ سے جڑا ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گوگل امریکہ میں اپنے مصنوعی ذہانت اسسٹنٹ جیمنائی سے متعلق پرائیویسی خلاف ورزیوں کے الزامات پر کلاس ایکشن مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔ مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اکتوبر میں گوگل نے بغیر صارف کی رضامندی کے جی میل، چیٹ اور میٹ میں یہ ٹول چپکے سے فعال کر دیا، جس سے ای میلز، اٹیچمنٹس اور ویڈیو کالز تک رسائی حاصل ہو گئی۔ گوگل نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
ایئربس اب ایک بڑے ٹینڈر کی تیاری کر رہا ہے تاکہ مشن کریٹیکل ورک لوڈز کو ڈیجیٹل خودمختار یورپی کلاؤڈ پر منتقل کیا جا سکے۔ کمپنی فی الحال گوگل ورک اسپیس استعمال کر رہی ہے، لیکن ڈیٹا سینٹرز کی توسیع کے بعد کلیدی آن پریمیسز سسٹمز کو منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔ یہ منتقلی پروڈکشن، بزنس مینجمنٹ اور ہوائی جہازوں کے ڈیزائن ڈیٹا جیسے بنیادی سسٹمز پر محیط ہوگی۔ ایئربس نے تخمینہ لگایا ہے کہ یورپی فراہم کنندہ جو اس کی تکنیکی اور قانونی ضروریات پوری کر سکے، ملنے کے امکانات صرف اسی فیصد ہیں۔
ایئربس کی ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ ڈیجیٹل کیتھرین جیسٹن نے دی رجسٹر کو بتایا کہ ”مجھے خودمختار کلاؤڈ کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ معلومات قومی اور یورپی نقطہ نظر سے انتہائی حساس ہیں۔ ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ معلومات یورپی کنٹرول میں رہیں۔“
پچاس ملین یورو سے زائد مالیت کا یہ ٹینڈر جنوری کے آغاز میں لانچ ہونے کا امکان ہے اور موسم گرما سے قبل فیصلہ متوقع ہے۔ ایئربس، جو گزشتہ چھ سالوں سے عالمی ہوائی جہاز آرڈرز کی دوڑ میں سرفہرست رہی ہے، نے اس ماہ اعتراف کیا کہ امریکی حریف بوئنگ اس سال اسے پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔ سی ای او گیوم فوری نے کہا کہ بوئنگ کو تجارتی مذاکرات میں سیاسی حمایت حاصل رہی، جن میں بڑے ہوائی جہازوں کی خریداریاں شامل تھیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بوئنگ کی سیلز میں اضافے کا کریڈٹ خود لیا اور اس ماہ کہا کہ کمپنی نے انھیں “بوئنگ کی تاریخ کا سب سے عظیم سیلز مین” قرار دے کر ایوارڈ دیا۔
یہ اقدام یورپی کمپنیوں میں ڈیٹا خودمختاری اور امریکی ٹیک کمپنیوں پر انحصار کم کرنے کی بڑھتی ہوئی رجحان کی عکاسی کرتا ہے، جو سیکورٹی اور جیو پولیٹیکل خدشات سے جڑا ہے۔