بھارت میں پانی کا بحران، عالمی مشروب ساز کمپنیوں کے لیے نئے خطرات
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
بھارت میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیاں طویل عرصے سے پیچیدہ قوانین، غیر واضح ٹیکس نظام اور انتظامی رکاوٹوں کا سامنا کرتی آ رہی ہیں، تاہم اب انہیں ایک اور سنگین چیلنج درپیش ہے، اور وہ ہے پانی کی شدید قلت۔ شمال مغربی بھارتی ریاست راجستھان میں دنیا کی بڑی مشروب ساز کمپنیاں پانی کی تیزی سے ختم ہوتی ہوئی دستیابی، سخت حکومتی ضوابط اور مقامی آبادی کی ناراضی کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ راجستھان کا تقریباً دو تہائی حصہ تھر کے صحرا پر مشتمل ہے، جبکہ یہاں زیرِ زمین پانی کا بے تحاشا استعمال بھارت میں سب سے زیادہ شمار ہوتا ہے۔ اس صورتحال نے ریاست کی معیشت پر دباؤ بڑھا دیا ہے، جہاں 8 کروڑ 50 لاکھ آبادی، سیاحت، صنعت اور وسیع زرعی شعبے کی ضروریات کو پورا کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ بھارتی قوانین کے تحت شراب کی بین الصوبائی ترسیل خصوصی اجازت کے بغیر ممکن نہیں، جس کے باعث کمپنیوں کو ہر اس ریاست میں پیداواری یونٹ قائم کرنا پڑتا ہے جہاں وہ اپنی مصنوعات فروخت کرنا چاہتی ہیں، چاہے وہاں پانی کی شدید کمی ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی کمپنیاں جیسے ڈیاجیو، کارلس برگ اور ہائینکن کو راجستھان میں بھی فیکٹریاں چلانا پڑ رہی ہیں۔ ہائینکن کی عالمی پائیداری کی سینئر ڈائریکٹر سونیا تھمیا کے مطابق بھارت میں پانی کا دباؤ ایک تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، اور چند برس قبل بعض شہروں میں پانی کی طلب دستیاب وسائل کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ پانی کے مؤثر استعمال کو بڑھا رہی ہیں، مقامی آبادی کی پانی تک رسائی بہتر بنانے پر کام کر رہی ہیں اور اپنی فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے سو فیصد پانی کو دوبارہ قدرتی ذخائر میں لوٹانے کا ہدف رکھتی ہیں۔
راجستھان میں مشروب ساز کمپنیوں کو درپیش مسائل دراصل پورے بھارت کے پانی بحران کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں دنیا کی 17 فیصد آبادی آباد ہے لیکن میٹھے پانی کے وسائل صرف 4 فیصد ہیں۔ تیزی سے بڑھتی معیشت کے باعث صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے محدود آبی وسائل پر دباؤ مزید بڑھ رہا ہے۔ یہ صورتحال خاص طور پر صنعتی شہر الور میں واضح ہے، جو دہلی سے تقریباً 150 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے اور جہاں زیادہ تر مشروب ساز کمپنیاں قائم ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق الور ضلع میں زیرِ زمین پانی کا استعمال، خصوصاً زرعی آبپاشی کے باعث، قدرتی ری چارج کی صلاحیت سے تقریباً دو گنا زیادہ ہے۔ اگرچہ صنعت راجستھان کے کل پانی کا صرف 2 فیصد استعمال کرتی ہے، تاہم بھارتی قوانین کے تحت تمام صنعتی اداروں کو بارش کے پانی کو محفوظ کرنے اور زیرِ زمین ذخائر کو بحال کرنے کے نظام نصب کرنا لازمی ہے۔ ایسے علاقوں میں جو حکومتی درجہ بندی کے مطابق “حد سے زیادہ استعمال شدہ” قرار دیے گئے ہیں، صنعتوں کو جدید ترین پانی بچانے والی ٹیکنالوجی اپنانے کا پابند بنایا گیا ہے. ڈیاجیو کے الور میں سربراہ سمیت والیا کے مطابق زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے اور بارشوں کا نظام غیر یقینی ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کمپنی پانی کے استعمال میں 40 فیصد کمی اور نکالے گئے پانی کی مکمل بحالی کے وژن پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت فضلہ پانی کو مکمل طور پر ری سائیکل کیا جا رہا ہے اور ایسی ٹیکنالوجی اپنائی جا رہی ہے جس میں پانی کی جگہ ہوا سے بوتلیں صاف کی جاتی ہیں۔
دوسری جانب مقامی آبادی میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ الور کے قریب واقع سلپور گاؤں میں، جہاں تقریباً 4 ہزار 500 افراد رہائش پذیر ہیں، پانی ہفتے میں صرف ایک بار دستیاب ہوتا ہے۔ گاؤں کے سربراہ عمران خان کے مطابق پانی کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اور کسانوں کو پانی حاصل کرنے کے لیے کئی دن پہلے اطلاع دینا پڑتی ہے۔
کچھ مقامی افراد پانی کی قلت کا ذمہ دار انہی فیکٹریوں کو ٹھہراتے ہیں۔ الور کے رہائشی حیدر علی نے گزشتہ سال کئی عالمی اور مقامی شراب ساز کمپنیوں کے خلاف ماحولیاتی عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں الزام لگایا گیا کہ یہ کمپنیاں اجازت کے بغیر پانی نکال رہی ہیں۔ تاہم عدالتی تحقیقاتی ٹیم نے فیکٹریوں کو قواعد کے مطابق قرار دیا، البتہ عدالت نے حکام کو زیرِ زمین پانی کے استعمال کی سخت نگرانی اور نئے صنعتی اجازت ناموں پر پابندی کے احکامات پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کی ہے۔