بے نظیر بھٹو کی 18ویں برسی: پاکستانی سیاست کا ایسا خلا جو تاحال پُر نہ ہو سکا
اسلام آباد (صداۓ روس)
سابق وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 23 کارکنوں کی شہادت کی 18ویں برسی آج پورے ملک میں عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں پیش آنے والا یہ سانحہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک المناک اور سیاہ باب تصور کیا جاتا ہے، جس کے اثرات آج بھی ملکی سیاست میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو عالمِ اسلام کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں، جنہوں نے آئین، پارلیمان اور عوامی حقوق کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ صدر زرداری کے مطابق بے نظیر بھٹو جمہوریت، پرامن سیاست اور عوامی بالادستی پر غیر متزلزل یقین رکھتی تھیں اور انہوں نے آمریت کے خلاف مزاحمت کی ایک روشن مثال قائم کی۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی بے نظیر بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 27 دسمبر پیپلز پارٹی کے لیے اجتماعی سوگ، غور و فکر اور تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہید بے نظیر بھٹو آمریت، انتہاپسندی اور عدم برداشت کے خلاف جدوجہد کی علامت تھیں، اور ان کا مشن آج بھی پارٹی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ خاتونِ اول آصفہ بھٹو زرداری نے اس موقع پر گڑھی خدابخش میں بے نظیر بھٹو کے مزار پر حاضری دی، فاتحہ خوانی کی اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔
اٹھارہ برس گزرنے کے باوجود آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے پیچھے کون سے طاقتور ہاتھ تھے جنہیں منظرِ عام پر نہیں لایا جا سکا۔ یہی لیاقت باغ وہ مقام ہے جہاں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم شہید لیاقت علی خان کو بھی قتل کیا گیا، مگر ان کے قاتل بھی آج تک بے نقاب نہ ہو سکے۔ اس سانحے کی تحقیقات میں شامل اسکاٹ لینڈ یارڈ بھی اصل محرکات اور ذمہ دار عناصر کو پوری طرح سامنے لانے میں ناکام رہی۔ اس المناک واقعے میں شہید ہونے والوں میں رفیق رضا (راولپنڈی)، نعیم اختر (ٹوبہ ٹیک سنگھ)، نعیم اصغر (گوجرانوالہ)، آصف ثمر (راولپنڈی)، ذوالفقار علی (فیصل آباد)، توقیر اکرم (لالہ موسیٰ)، محمد بشیر (مظفرآباد)، جاوید اقبال (راولپنڈی)، راجہ حبیب (راولپنڈی)، بشیر احمد (خیبر پختونخوا)، محمد شفیق (راولپنڈی)، ظہیر احمد (لاہور)، چوہدری حاکم (قصور)، محمد شفیق (لاہور)، راجہ آمین (راولپنڈی)، نذر احمد (کراچی)، ساجد علی (کوٹلی)، جمیل احمد (راولپنڈی)، ممتا ز حسین (راولپنڈی)، ساجد محمود (راولپنڈی) اور مظہر تنویر (کوٹلی ستیاں) شامل ہیں، جبکہ انور خان، نذیر بٹ، سراج خان، چوہدری غوث اور راجہ افراز بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جانبر نہ ہو سکے۔ سانحہ 2007 میں یتیم ہونے والے بچے آج جوان ہو چکے ہیں، جبکہ اس حملے میں زخمی ہونے والے اختر سعید، حسنین اشرف، الطاف بٹ، حاجی خالد، راجہ ریاض اور عذیر بٹ آج بھی اس دن کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق بے نظیر بھٹو صرف ایک سیاسی رہنما نہیں بلکہ امید، حوصلے اور عوامی سیاست کی علامت تھیں۔