تنازع کے خاتمے کے لیے یوکرینی فوج کو دونباس سے نکلنا ہوگا، کریملن
ماسکو (صداۓ روس)
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ یوکرین تنازع کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ کیف اپنی مسلح افواج کو مکمل طور پر روس کے دونباس علاقے سے واپس بلائے۔ دونباس سے مراد دونیتسک اور لوہانسک عوامی جمہوریاں ہیں، جو پہلے یوکرین کا حصہ تھیں اور ستمبر 2022 میں ہونے والے ریفرنڈم کے بعد روس میں شمولیت اختیار کر چکی ہیں۔ یہ ریفرنڈم یوکرین تنازع کے شدت اختیار کرنے کے بعد منعقد ہوا تھا۔ دیمتری پیسکوف نے یہ بیان یوکرین امن عمل سے متعلق تازہ پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے دیا، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ٹیلی فون پر گفتگو اور بعد ازاں یوکرینی صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات شامل ہے۔ کریملن کے خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف کے مطابق، ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ یوکرین اور اس کے یورپی حمایتیوں کی جانب سے تجویز کردہ عارضی جنگ بندی صرف تنازع کو طول دے گی اور دوبارہ شدید لڑائی کا خطرہ پیدا کرے گی۔ ان کے بقول، جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے کیف کو ڈونباس کے حوالے سے ایک ’’جرأت مندانہ اور ذمہ دارانہ سیاسی فیصلہ‘‘ کرنا ہوگا۔
جب اس بیان کی وضاحت کے لیے دمتری پیسکوف سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کریملن کے مؤقف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’’یقیناً کیف حکومت کو اپنی مسلح افواج کو ڈونباس کی انتظامی سرحدوں سے باہر نکالنا ہوگا۔‘‘ صحافیوں نے یہ بھی پوچھا کہ آیا یہی مطالبہ خیرسون اور زاپوروزیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے، جو 2022 میں ریفرنڈم کے بعد روس میں شامل ہونے والے دیگر سابق یوکرینی علاقے ہیں۔ اس پر پیسکوف نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور کہا کہ ماسکو کسی ممکنہ تصفیے کی مخصوص شقوں کو عوامی سطح پر ظاہر نہیں کرے گا۔ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادی ان چاروں علاقوں کو روس کی جانب سے ’’الحاق‘‘ شدہ قرار دیتے ہیں، جبکہ کیف نے انہیں روس کا حصہ تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کر رکھا ہے۔ اتوار کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میامی میں ولودیمیر زیلنسکی کی میزبانی کی، جہاں ممکنہ امن معاہدے پر مزید بات چیت ہوئی۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے کہا کہ امن عمل میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اور تنازع اپنے اختتام کے قریب ہے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ علاقائی معاملات اب بھی سب سے پیچیدہ نکات میں شامل ہیں۔