چینی لیب میں تیار انسانی گردہ: خون فلٹر کرنے اور پیشاب پیدا کرنے میں کامیاب

kidney kidney

چینی لیب میں تیار انسانی گردہ: خون فلٹر کرنے اور پیشاب پیدا کرنے میں کامیاب

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
طبی سائنس اور بایو انجینئرنگ کے میدان میں ایک غیر معمولی پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں سائنس دانوں نے لیبارٹری میں تیار کیا گیا ایسا انسانی گردہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے جو محض ساختی نمونہ نہیں بلکہ عملی حیاتیاتی افعال انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین کے Shanghai Institute of Biochemistry and Cell Biology کے محققین کے مطابق تجربہ گاہ میں تیار کردہ اس بایو انجینئرڈ انسانی گردے کے ٹشو نے کنٹرولڈ حالات میں خون کے اجزا کو فلٹر کیا، الیکٹرولائٹس کو متوازن رکھا اور مسلسل 60 گھنٹوں سے زائد عرصے تک پیشاب جیسا سیال پیدا کیا۔ یہ تمام عمل مسلسل پرفیوژن (خون جیسی روانی) کے دوران مستحکم انداز میں جاری رہا۔ محققین کے مطابق یہ گردہ محض انسانی گردے کی نقل یا ڈھانچہ نہیں تھا بلکہ اس نے قدرتی گردے جیسا عملی رویہ دکھایا۔ تجربے کے دوران اس کی کارکردگی میں استحکام برقرار رہا، جو اس بات کی علامت ہے کہ لیبارٹری میں اگائے گئے اعضا اب صرف ساختی نمونوں سے آگے بڑھ کر حقیقی حیاتیاتی نظام بننے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اس پیش رفت کے ممکنہ اثرات نہایت گہرے ہیں۔ دنیا بھر میں 80 کروڑ سے زائد افراد گردوں کی بیماریوں کا شکار ہیں اور ہر سال لاکھوں مریض پیوند کاری کے انتظار میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر آئندہ تحقیق میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو مریض کے اپنے خلیات سے تیار کردہ گردے نہ صرف اعضا کی شدید کمی پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ جسم میں ردِعمل (ریجیکشن) کے خطرے کو بھی نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں، اور عمر بھر امیونوسپریسیو ادویات کی ضرورت بھی ختم ہو سکتی ہے۔

تاہم ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی، یعنی پری کلینیکل مرحلے میں ہے۔ انسانوں میں پیوند کاری کے عملی تجربات میں ابھی کئی سال لگ سکتے ہیں، جبکہ طویل مدتی حفاظت، پائیداری اور بڑے پیمانے پر تیاری جیسے اہم سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔ اس کے باوجود، یہ کامیابی ٹشو انجینئرنگ اور طبِ تجدید کے شعبے میں ایک بڑا قدم سمجھی جا رہی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پیچیدہ انسانی اعضا کو لیبارٹری میں اس حد تک تیار کیا جا سکتا ہے کہ وہ حقیقی جسمانی افعال انجام دے سکیں۔اگرچہ یہ دریافت فوری طور پر اعضا کی پیوند کاری کے عالمی بحران کا حل نہیں، مگر اس نے طب کو اس مستقبل کے ایک قدم اور قریب کر دیا ہے جہاں اعضا کی ناکامی کا علاج انتظار سے نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق نیا عضو تیار کر کے ممکن ہو سکے گا۔

Advertisement