شمالی پاکستان کے پہاڑوں میں چھپی ایک پراسرار مخلوق
اسلام آباد (صداۓ روس)
شمالی پاکستان کے دور افتادہ اور برف پوش پہاڑی سلسلوں میں ایک ایسی داستان صدیوں سے گردش کر رہی ہے جو حقیقت اور افسانے کے درمیان معلق نظر آتی ہے۔ اس مخلوق کو مقامی زبانوں میں برمانو کہا جاتا ہے، جبکہ بعض علاقوں میں اسے برمانوؤ یا بدمنوس کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مقامی باشندوں کے مطابق برمانو ایک انسان نما جنگلی مخلوق ہے جو دو پیروں پر چلتی ہے۔ اس کا جسم گھنے بالوں سے ڈھکا ہوا بتایا جاتا ہے، جبکہ چہرہ بندر کے بجائے انسان سے زیادہ مشابہ ہوتا ہے۔ بعض روایات میں یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوق جانوروں کی کھالیں اوڑھے ہوئے دیکھی گئی ہے، جو اسے محض ایک جانور کے بجائے کسی ابتدائی انسانی نسل سے جوڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برمانو قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع بلند و بالا وادیوں میں رہائش پذیر ہے، جہاں شدید سردی، گھنے جنگلات اور دشوار گزار راستے انسانی رسائی کو انتہائی محدود بنا دیتے ہیں۔ اس داستان کا سب سے خوفناک پہلو وہ روایات ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ برمانو نے بعض مواقع پر انسانوں، بالخصوص خواتین، کو اغوا کرنے کی کوشش کی۔ مقامی آبادی یہ بھی بیان کرتی ہے کہ شام کے وقت پہاڑوں میں گونجنے والی بھاری اور کھردری آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو نہ مکمل طور پر انسانی ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی معلوم جانور کی آواز سے مشابہ۔
یہ مخلوق چترال، گلگت بلتستان اور کوہستان کے علاقوں میں دیکھنے کی اطلاعات ملتی رہی ہیں، جہاں چرواہے اور گجر برادری کے لوگ اسے “جنگلی موش” یا “پاری” کہتے ہیں۔ برمانو کا نام سنسکرت کے “بان مانوس” (جنگل کا انسان) سے نکلا ہے اور یہ یٹی یا بگ فٹ کی پاکستانی شکل سمجھا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایک غیر ملکی ماہرِ حیوانات نے شمالی پاکستان کے بعض علاقوں میں اس مخلوق کے وجود کے ثبوت تلاش کرنے کے لیے سروے بھی کیا، تاہم کوئی فیصلہ کن شواہد — جیسے ہڈیاں، بال یا واضح قدموں کے نشان — حاصل نہ ہو سکے۔ علاقے کی سخت جغرافیائی ساخت اور محدود آبادی نے اس تحقیق کو مزید مشکل بنا دیا۔ یہ سوال آج بھی برقرار ہے کہ آیا برمانو کسی غیر دریافت شدہ انسانی نسل کا باقی ماندہ وجود ہے، کسی نامعلوم جانور کی غلط پہچان، یا محض پہاڑی علاقوں میں جنم لینے والی اجتماعی لوک کہانی۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک شمالی پاکستان کے پہاڑ اپنے راز سینے سے لگائے رکھیں گے، برمانو کی کہانی بھی ان وادیوں میں سرگوشیوں کی صورت زندہ رہے گی۔