اشتیاق ہمدانی.
پنجابی گلوکار اور اداکار راجویر جوانڈا کی موت نے پورے ہندوستان، خصوصاً پنجاب کی موسیقی کی دنیا کو گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔ صرف پینتیس برس کی عمر میں ان کا اچانک دنیا سے رخصت ہو جانا نہ صرف مداحوں بلکہ موسیقی اور فلم انڈسٹری کے بڑے ناموں کے لیے بھی ناقابلِ یقین سانحہ بن گیا۔ ہماچل پردیش میں ایک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے بعد وہ گیارہ دن تک اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے، مگر بدھ کے روز دم توڑ گئے۔ سوشل میڈیا پر مداحوں نے ان کے لیے تعزیتی پیغامات شیئر کیے، اور متعدد فنکاروں نے اس حادثے کو سڑکوں کی خراب حالت اور انتظامیہ کی غفلت سے جوڑا۔
پنجابی موسیقی کے مداح اب ایک بار پھر اس سوال پر غور کر رہے ہیں جو پچھلے چند برسوں سے بار بار ابھرتا رہا ہے — آخر کیوں ہر وہ پنجابی گلوکار جو تیزی سے شہرت حاصل کرتا ہے، جلد ہی کسی حادثے یا پرُاسرار واقعے کا شکار بن جاتا ہے؟ اس سوال کے پیچھے ایک طویل تاریخ اور کئی المناک واقعات موجود ہیں، جنہوں نے پنجابی میوزک انڈسٹری پر گہرا اثر چھوڑا۔
انیس سو اٹھاسی میں مشہور گلوکار امر سنگھ چمکیلا کو ان کی اہلیہ امرجوت کے ساتھ نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ان کا جرم شاید یہ تھا کہ وہ اپنی گیتوں میں پنجاب کے سماجی تضادات، طبقاتی ناانصافیوں اور دیہی زندگی کی حقیقتوں کو بے باکی سے بیان کرتے تھے۔ چمکیلا کا قتل آج بھی ایک معمہ ہے، نہ قاتل پکڑے گئے اور نہ ہی اس واردات کی کوئی واضح وجہ سامنے آئی۔ بعض رپورٹس کے مطابق انہیں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیاں ملی تھیں، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ موسیقی کی دنیا میں ان کی غیر معمولی مقبولیت کچھ طاقتور حلقوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئی تھی۔
اس کے بعد ایک طویل عرصے تک پنجاب کی موسیقی میں خاموشی رہی، مگر دو دہائیاں بعد سدھو موس والا کے قتل نے اسی زخم کو پھر سے تازہ کر دیا۔ صرف انتیس برس کی عمر میں موس والا کو 2022 میں پنجاب کے ضلع منسا میں دن دہاڑے گولی مار دی گئی۔ یہ واقعہ پورے بھارت میں غم و غصے کا باعث بنا۔ تحقیقات میں ان کے قتل کو ایک منظم گینگ وار سے جوڑا گیا۔ پولیس کے مطابق موس والا کا قتل ایک بین الاقوامی گینگ نیٹ ورک کے حکم پر ہوا، جس کے روابط بھارت، کینیڈا اور دبئی تک پھیلے ہوئے تھے۔ موس والا کی سکیورٹی کو قتل سے صرف ایک دن قبل کم کر دیا گیا تھا، جس پر عوامی سطح پر شدید سوالات اٹھے۔
پنجاب میں جرائم پیشہ گروہوں اور سیاسی تعلقات کے باہمی میل نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں شہرت اور اثر و رسوخ بعض اوقات خطرے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گینگ وار، سیاسی وابستگی، مالی لین دین، اور سوشل میڈیا کی طاقت نے اس انڈسٹری کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ کئی مبصرین کا خیال ہے کہ مقبول پنجابی فنکار اکثر ایسی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں جو ان کی آزادیِ اظہار یا سماجی اثر کو برداشت نہیں کرتیں۔
سدھو موس والا کے علاوہ کئی اور گلوکار بھی تشدد کا نشانہ بنے۔ ناوجوت سنگھ المعروف اِساپوریہ وِرک کو 2018 میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس نے حال ہی میں اس کیس کے کچھ ملزمان کو گرفتار کیا، لیکن واقعے کی مکمل تفصیلات اب بھی مبہم ہیں۔ اسی طرح کچھ اور گلوکاروں کے ساتھ بھی ایسے حادثات ہوئے جنہیں ابتدا میں محض اتفاق سمجھا گیا، مگر بعد میں ان کے پیچھے ذاتی دشمنی یا علاقائی رقابت جیسے پہلو سامنے آئے۔
راجویر جوانڈا کی موت بظاہر ایک حادثہ قرار دی جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق وہ اپنی نئی موٹر سائیکل پر سفر کے دوران پھسل کر گر پڑے، جس کے نتیجے میں انہیں شدید چوٹیں آئیں۔ تاہم، ان کے چاہنے والے اور کچھ فنکار اس واقعے پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر پنجاب اور شمالی بھارت کے موسیقار بار بار حادثوں کا شکار کیوں بنتے ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی منظم غفلت یا مجرمانہ بے حسی کارفرما ہے؟
پنجاب کی موسیقی ہمیشہ عوامی آواز رہی ہے۔ یہاں کے گیت محبت، دکھ، بغاوت اور مزاحمت کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں۔ جب کوئی فنکار اس آواز کو طاقتور بناتا ہے، تو وہ صرف ایک گلوکار نہیں رہتا — وہ ایک سماجی نمائندہ بن جاتا ہے۔ اور شاید یہی مقام بعض حلقوں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
پچھلے چند برسوں میں پنجابی میوزک انڈسٹری نے عالمی سطح پر بے پناہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ یوٹیوب، انسٹاگرام اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے نوجوان گلوکاروں کو شہرت کی نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ مگر اسی کے ساتھ خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ غیر قانونی ہتھیاروں کا کلچر، گینگ وائلنس، اور آن لائن دشمنی نے اس منظرنامے کو مزید خطرناک بنا دیا ہے۔ کئی فنکار اپنے گانوں میں بندوقوں، تشدد اور طاقت کی علامتوں کو استعمال کرتے ہیں، جو بسا اوقات حقیقی تنازعات کو جنم دے دیتے ہیں۔
راجویر جوانڈا کی موت کے بعد یہ بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے کہ کیا حکومت اور سکیورٹی ادارے پنجابی فنکاروں کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر اقدامات کریں گے؟ کیونکہ یہ صرف ایک انفرادی سانحہ نہیں، بلکہ ایک پوری ثقافتی صنعت کے تحفظ اور وقار کا سوال ہے۔ اگر اس تسلسل کو روکا نہ گیا تو پنجاب کی موسیقی، جو کبھی محبت اور امن کی علامت سمجھی جاتی تھی، خوف اور خطرے کی علامت بن سکتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ بھارت کے فنکار، صحافی، اور پالیسی ساز مل کر اس بات پر سنجیدگی سے غور کریں کہ آخر اس خطے کے گلوکار بار بار کیوں مارے جاتے ہیں، اور ان کے قاتل کیوں قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملتا، راجویر جوانڈا، سدھو موس والا اور امر سنگھ چمکیلا جیسے نام صرف یادیں نہیں بلکہ ایک مستقل سوال بنے رہیں گے — کہ کیا پنجاب کی سرزمین اپنے فنکاروں کے لیے اب بھی محفوظ ہے؟