دہشتگردی کے خاتمے کے لیے افغان حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے، وزیراعظم
اسلام آباد (صداۓ روس)
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ افغان طالبان نے بھارت کی شہ پر پاکستان پر حملہ کیا، جس کے جواب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج نے بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغان طالبان کی درخواست پر 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی کی گئی ہے، تاہم صرف وقت گزاری کے لیے جنگ بندی قبول نہیں کی جا سکتی۔ اُن کے مطابق، اب گیند افغان طالبان کے کورٹ میں ہے، اگر وہ دہشت گردی ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ افغانستان میں دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جس سے پاکستان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ افغان جارحیت پر افواجِ پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا اور خوارجیوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قطر سمیت کئی دوست ممالک اس تنازع کے حل کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سے دو ہزار کلومیٹر طویل بارڈر شیئر کرتا ہے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود چالیس لاکھ افغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ بھائی چارے کے رشتے کو قائم رکھا اور افغانستان کے ساتھ جائز شرائط پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
شہباز شریف نے سوال اٹھایا کہ 2018 میں جب دہشت گردی ختم ہو چکی تھی تو یہ دہشتگرد دوبارہ کیسے لوٹ آئے؟ اُنہوں نے الزام لگایا کہ 2018 کے بعد کی حکومت نے ان دہشتگردوں کو واپس لا کر بسایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غزہ میں معصوم بچوں کا خون بہ رہا تھا، لیکن تنقید کرنے والے اس وقت خاموش تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان نے غزہ جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا، شرم الشیخ میں معاہدہ ہوا اور فلسطینی عوام نے جنگ رکنے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ اُنہوں نے صدر ٹرمپ سمیت تمام عالمی رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے امن کے لیے کردار ادا کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہونی چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے اور آئندہ بھی اٹھاتا رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے بعد اگلی قسط ملنے کی توقع ہے۔ اُنہوں نے زور دیا کہ یہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہونا چاہیے۔ اُن کے مطابق، “وقت آ گیا ہے کہ ہم قرضوں سے جان چھڑائیں، یہ راستہ کٹھن ضرور ہے مگر قومی غیرت اور خودمختاری کے لیے دن رات محنت کرنا ہوگی۔ جب ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہوگا تو ہماری آواز میں بھی وزن ہوگا۔”