اے کے-47 وہ ہتھیار جس کی وجہ سے امریکہ ویتنام کی جنگ ہارگیا

AK 47 AK 47

اے کے-47 وہ ہتھیار جس کی وجہ سے امریکہ ویتنام کی جنگ ہارگیا

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ویتنام کی جنگ میں سوویت ساختہ خودکار رائفل اے کے 47 (AK-47) کو وہ ہتھیار سمجھا جاتا ہے جس نے شمالی ویتنامی افواج اور ویت کانگ کو ایک طاقتور برتری دی۔ یہ بندوق اپنی مضبوطی، سادگی اور قابلِ اعتماد کارکردگی کے باعث امریکی ایم-16 رائفلز پر بھاری ثابت ہوئی۔ جنگل کے سخت اور نمی سے بھرے حالات میں جہاں امریکی ایم-16 اکثر بارود کے معیار اور صفائی کے مسائل کی وجہ سے جام ہو جاتی تھیں، وہاں اے کے 47 بغیر کسی دشواری کے کام کرتی رہی۔ اس کی سادہ ساخت نے اسے بڑے پیمانے پر تیار کرنا آسان بنایا، اور شمالی ویتنامی فوجیوں کے لیے اسے استعمال اور مرمت کرنا نہایت سہل تھا۔ قریب فاصلے کی جھڑپوں میں اے کے 47 نے ویت کانگ کی گوریلا حکمتِ عملی کو مؤثر بنایا۔ ان کا انحصار گھات لگا کر حملے، تنگ جنگلات میں قریبی لڑائی اور اچانک کارروائیوں پر تھا، جن میں یہ ہتھیار انتہائی موزوں ثابت ہوا۔

اگرچہ امریکہ کی شکست کے اسباب صرف ایک ہتھیار تک محدود نہیں تھے، لیکن اے کے 47 نے جنگ کے توازن پر نمایاں اثر ڈالا۔ اصل وجوہات میں امریکی حکمتِ عملی کی ناکامی، بدلتے سیاسی مقاصد، اور عوامی حمایت کا زوال شامل تھے۔ ویتنامی جنگجوؤں کی قومی آزادی کے لیے قربانی دینے کی غیر معمولی عزم و استقامت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ امریکی افواج جدید ٹیکنالوجی، فضائی قوت اور بھاری ہتھیاروں کے باوجود گھنے جنگلات میں دشمن کی رسد گاہوں، خصوصاً ہو چی منہ ٹریل، کو مؤثر طور پر نشانہ بنانے میں ناکام رہیں۔ دشمن اور عام شہریوں میں تمیز مشکل ہونے کے باعث بھی امریکی حکمتِ عملی کمزور پڑ گئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اگرچہ ویتنام میں امریکہ کی شکست سیاسی اور عسکری وجوہات کا نتیجہ تھی، تاہم اے کے 47 اس جنگ کی ایک ایسی علامت بن گئی جس نے دنیا کو یہ دکھایا کہ سادہ مگر مؤثر ہتھیار کس طرح ایک سپر پاور کو جھکنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

Advertisement