خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

پاکستان میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی جاسوسی، ایمنسٹی انٹرنیشنل کا انکشاف

Pakistan

پاکستان میں بڑے پیمانے پر شہریوں کی جاسوسی، ایمنسٹی انٹرنیشنل کا انکشاف

اسلام آباد (صداۓ روس)
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اپنے لاکھوں شہریوں کی جاسوسی کے لیے جدید فون ٹیپنگ نظام اور ایک ایسا چینی فائر وال استعمال کر رہا ہے جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو سنسر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق یہ نظام دنیا میں چین کے بعد ریاستی نگرانی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا یہ بڑھتا ہوا نگرانی کا جال چینی اور مغربی ٹیکنالوجی دونوں پر مبنی ہے اور اس کے ذریعے حکومت مخالف آوازوں اور آزادی اظہار پر کریک ڈاؤن کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اپنے ’’لافل انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم‘‘ کے ذریعے بیک وقت کم از کم 40 لاکھ موبائل فونز کی نگرانی کرسکتی ہیں، جب کہ ایک جدید فائر وال ’’ڈبلیو ایم ایس 2.0‘‘ انٹرنیٹ ٹریفک کا جائزہ لے کر دو ملین فعال سیشنز کو بلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دونوں نظام باہمی طور پر کام کرتے ہیں، ایک جانب کالز اور پیغامات کو ٹیپ کیا جاتا ہے اور دوسری جانب سوشل میڈیا اور ویب سائٹس تک عوامی رسائی کو محدود کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں اس وقت تقریباً چھ لاکھ پچاس ہزار ویب لنکس بند کیے جاچکے ہیں، جب کہ یوٹیوب، فیس بک اور ایکس (سابقہ ٹوئٹر) جیسے پلیٹ فارمز پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر بلوچستان میں محسوس کیا جا رہا ہے جہاں بعض اضلاع برسوں سے انٹرنیٹ کی بندش کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ صورتحال لاپتہ افراد اور سیاسی کارکنوں کے قتل جیسے سنگین الزامات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، جنہیں فوج مسترد کرتی ہے۔

ایمنسٹی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نگرانی کے نظام کے لیے استعمال ہونے والے آلات اور سافٹ ویئر مختلف ممالک کی کمپنیوں سے فراہم کیے گئے ہیں، جن میں چین، امریکہ، جرمنی، فرانس اور متحدہ عرب امارات کی کمپنیاں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فائر وال کی سپلائی چینی کمپنی ’’جی ایج نیٹ ورکس‘‘ نے فراہم کی، جب کہ فون ٹیپنگ سسٹم جرمن کمپنی ’’اوٹیماکو‘‘ نے تیار کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر نگرانی شہری آزادیوں اور نجی زندگی کے حقوق کے لیے سنگین خطرہ ہے اور اس سے معاشرے میں خوف کی فضا قائم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے لوگ آزادی اظہار سے کترانے لگتے ہیں۔

شئیر کریں: ۔