خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

آرمینیا کا روسی فوجی اتحاد سے علیحدگی کا عندیہ

Nikol Pashinyan

آرمینیا کا روسی فوجی اتحاد سے علیحدگی کا عندیہ

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان نے اشارہ دیا ہے کہ ان کا ملک روس کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد ’اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم‘ سے ممکنہ طور پر علیحدگی اختیار کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آرمینیا نے تقریباً ایک سال قبل اس اتحاد میں اپنی شرکت معطل کر دی تھی، اور اس کی وجہ آذربائیجان کے ساتھ تنازع کے دوران تنظیم کی طرف سے مؤثر حمایت نہ ملنا بتائی گئی تھی۔ یہ تنازع ناگورنو کاراباخ کے علاقے کی جبری واپسی پر منتج ہوا تھا۔ روس اور آرمینیا اُن سابق سوویت ریاستوں میں شامل تھے جنہوں نے 1992ء میں اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ اس تنظیم میں بیلا روس، قزاقستان، کرغزستان اور تاجکستان بھی شامل ہیں۔ تاہم، روس کا مؤقف ہے کہ آذربائیجان کا فوجی اقدام تنظیم کے کسی رکن کے خلاف جارحیت نہیں کہلا سکتا کیونکہ آرمینیا نے ناگورنو کاراباخ کو کبھی اپنی سرزمین تسلیم ہی نہیں کیا۔ مزید برآں، ماسکو نے یہ بھی واضح کیا کہ یریوان نے باکو کے ساتھ علاقائی مفاہمت کے روسی منصوبوں کو بارہا مسترد کیا تھا۔

بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاشینیان نے کہا اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم سے علیحدہ ہونے یا نہ ہونے کے سوال پر میں کہوں گا کہ آرمینیا کے اس اتحاد سے نکلنے کے امکانات، دوبارہ اس میں سرگرم ہونے سے کہیں زیادہ ہیں۔ دوسری طرف کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ کسی بھی ملک کی اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم میں شمولیت یا علیحدگی اس کی “خودمختار فیصلہ سازی” کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم کی رکنیت آرمینیا کو بعض فوائد فراہم کرتی ہے، اور یہ تنظیم اپنی افادیت کو بارہا ثابت کر چکی ہے۔

پاشینیان کی قیادت میں یریوان نے مغرب کے ساتھ روابط میں واضح اضافہ کیا ہے۔ اپنی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ
“آرمینیا یورپی یونین کا رکن بننا چاہتا ہے”۔ اس سلسلے میں رواں سال کے اوائل میں ایک قانون بھی منظور کیا گیا ہے۔ تاہم، پاشینیان نے اعتراف کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت کا عمل “پیچیدہ ہو گا” کیونکہ اس کے لیے نہ صرف کئی معیارات پورے کرنے ہوں گے بلکہ تمام یورپی رکن ریاستوں کی منظوری بھی درکار ہو گی۔ حالیہ ہفتوں میں آرمینیا میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر اس وقت جب آرمینیائی آرتھوڈوکس چرچ کے دو اعلیٰ مذہبی شخصیات اور ایک اہم روسی-آرمینیائی صنعت کار، سامویل کاراپتیان کو گرفتار کیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم پاشینیان کی حکومت گرانے کی سازش کی اور سرحدی دیہات آذربائیجان کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف عوام کو احتجاج پر اکسایا۔

کریملن کے ترجمان پیسکوف نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ “ماسکو آرمینیا میں قانون و نظم کے قیام میں دلچسپی رکھتا ہے” اور روس میں موجود آرمینیائی تارکین وطن بھی اپنے وطن کی صورتحال کو “دکھ کے ساتھ” دیکھ رہے ہیں۔

شئیر کریں: ۔