خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

آسٹریلیا میں چھریاں اور خنجر رکھنے پر مکمل پابندی، خلاف ورزی پر قید و جرمانہ

knife

آسٹریلیا میں چھریاں اور خنجر رکھنے پر مکمل پابندی، خلاف ورزی پر قید و جرمانہ

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا میں حکومت نے پُرتشدد جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظر خنجروں، چھریوں اور خاص طور پر “مچیٹی” جیسے تیز دھار ہتھیاروں پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ نئی پالیسی کے تحت شہریوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مچیٹی پولیس کے حوالے کر دیں، بصورتِ دیگر دو سال تک قید اور 30 ہزار آسٹریلوی ڈالر سے زائد جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ پابندی یکم ستمبر 2025 سے نافذ العمل ہو گی، جبکہ شہریوں کو 30 نومبر تک مہلت دی گئی ہے کہ وہ بغیر کسی قانونی استثنا کے اپنے ہتھیار حکام کے حوالے کر دیں۔ وکٹوریا کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ریاست بھر میں 40 سے زائد مقامات پر خصوصی ڈبے نصب کر دیے گئے ہیں جہاں شہری اپنے ہتھیار محفوظ طریقے سے جمع کرا سکتے ہیں۔ ریاستی وزیرِ اعلیٰ جیسنٹا ایلن اور وزیرِ پولیس انتھونی کاربینز کے مطابق یہ اقدام نوجوانوں میں گینگ کلچر، چاقو بردار وارداتوں اور پُرتشدد حملوں کی روک تھام کے لیے ضروری ہو چکا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ صرف رواں سال 2025 میں روزانہ اوسطاً 44 غیرقانونی تیز دھار ہتھیار ضبط کیے گئے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2014 کے مقابلے میں شاپنگ سینٹرز میں تیز دھار ہتھیاروں کے ساتھ کیے گئے حملوں میں 161 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 10 سے 17 سال کی عمر کے نوجوان مجموعی طور پر جرائم کا 13 فیصد حصہ ہیں، تاہم ڈکیتیوں میں ان کا حصہ 63 فیصد، سنگین گھریلو چوریوں میں 46 فیصد اور کار چوریوں میں 25 فیصد سے زائد ہے۔ پابندی میں کچھ رعایت بھی دی گئی ہے۔ زرعی کاموں میں مچیٹی استعمال کرنے والے یا روایتی و ثقافتی استعمال کا دعویٰ کرنے والے افراد اجازت حاصل کر سکتے ہیں، لیکن پولیس کے مطالبے پر ثبوت پیش کرنا لازمی ہو گا۔ نئی پالیسی کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جہاں کئی صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت اصل مسئلے یعنی امیگریشن، سماجی تناؤ اور نوجوان افریقی گینگز کی سرگرمیوں سے نظریں چرا رہی ہے۔ وکٹوریا کی وزیرِاعلیٰ جیسنٹا ایلن نے ایک بار پھر ریاست کی تنوع اور کثیرالثقافتی شناخت کا دفاع کیا ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں بھی حال ہی میں “ننجا تلواروں” پر پابندی عائد کی گئی تھی، جس پر بھی اسی نوعیت کی تنقید سامنے آئی تھی کہ حکومت مسئلے کی جڑ کو نہیں بلکہ اس کے ظاہری مظاہر کو نشانہ بنا رہی ہے۔

شئیر کریں: ۔