آسٹریا کا غیر جانبداری چھوڑنے اور نیٹو میں شمولیت پر غور ، وزیر خارجہ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
آسٹریا کی وزیر خارجہ بیآٹے مائنل رائسنگر نے کہا ہے کہ ملک کو نیٹو میں ممکنہ شمولیت پر کھلے دل سے بحث کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں نہ عوامی سطح پر اور نہ ہی پارلیمان میں اس تجویز کو اکثریتی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔ جرمن اخبار “ڈی ویلٹ” کو ہفتہ کے روز دیے گئے ایک انٹرویو میں وزیر خارجہ نے روس کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو “تیزی سے جارحانہ رویہ” اختیار کر رہا ہے اور یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر تیار نظر نہیں آتا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف غیر جانبداری سے آسٹریا کا دفاع ممکن نہیں، اس کے لیے دفاعی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ فوجی شراکت داری بھی ضروری ہے۔ بیآٹے مائنل رائسنگر نے کہا: “میں بنیادی طور پر اس بات کے لیے بہت کھلی ہوں کہ ہم نیٹو میں شمولیت جیسے اہم مسئلے پر عوامی سطح پر کھل کر بحث کریں۔ اگرچہ اس وقت نہ پارلیمان میں اور نہ ہی عوام کے درمیان اس کی اکثریتی حمایت موجود ہے، لیکن ایسی بحثیں مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میری یہ خواہش نہیں کہ ہم جھنڈے لہرا کر نیٹو میں شامل ہو جائیں”، لیکن موجودہ بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کو دیکھتے ہوئے آسٹریا محض خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔ واضح رہے کہ آسٹریا سن ۱۹۹۵ سے یورپی یونین کا رکن ہے اور اس کی آئینی حیثیت کے تحت وہ کسی بھی فوجی اتحاد کا رکن نہیں بن سکتا اور نہ ہی کسی غیر ملکی فوج یا اڈے کو اپنی سرزمین پر اجازت دے سکتا ہے۔ یہ شق ۱۹۵۵ کے “آسٹریائی ریاستی معاہدے” کا حصہ ہے، جو آسٹریا کو مکمل خودمختاری کی بحالی کے بدلے میں تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ اُس وقت کی تاریخی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا تھا، جب آسٹریا دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی جرمنی کا حصہ رہا تھا۔
۲۰۲۲ میں یوکرین جنگ کے شدت اختیار کرنے کے بعد آسٹریا نے مغربی پابندیوں کا ساتھ دیا، جس کے نتیجے میں روس نے اسے “دشمن ریاست” قرار دے دیا۔ گزشتہ دنوں روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے آسٹریا پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنی غیر جانبداری ترک کر چکا ہے اور اب بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی کے کردار سے ہٹ چکا ہے۔ یہ ردِعمل ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے جن کے مطابق آسٹریا اپنی سرزمین سے مسلسل اسلحے کی ترسیل کی اجازت دے رہا ہے۔ آسٹریا کے اس بیان سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ یورپی ممالک اب روس کے ساتھ کشیدگی کے پیش نظر دفاعی پالیسیوں پر ازسرنو غور کر رہے ہیں، اور آنے والے دنوں میں نیٹو کی جانب مزید جھکاؤ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔