آزاد کشمیر: حکومت کی طاقت کے استعمال پر تنقید، احتجاج کے خلاف پولیس ناکام
مظفرآباد (صداۓ روس)
آزاد جموں و کشمیر (اے جے کے) میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) کے جاری احتجاج کو دبانے کے لیے حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال پر شدید تنقید ہو رہی ہے، جہاں دانش مندی سے حل نکالنے کی بجائے پولیس اور رینجرز کی تعیناتی نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے 38 نکاتی مطالبات، جن میں مہنگائی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، سبسڈی کا خاتمہ، اور سیاسی اصلاحات شامل ہیں، پر مذاکرات ناکام ہونے کے بعد مظفرآباد، راولاکوٹ اور میرپور میں پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں۔ ان جھڑپوں میں اب تک 3 پولیس اہلکاروں سمیت 9 افراد جاں بحق اور 72 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی بندش نے شہریوں کی مشکلات کو دوبالا کر دیا ہے۔
ماہرین اور مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے طاقت کا استعمال، جیسے کہ آنسو گیس، لاٹھی چارج، اور ہوائی فائرنگ، نے مظاہرین کو مزید مشتعل کیا ہے، اور پرامن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما شوکت نواز میر نے کہا کہ “حکومت ہمارے مطالبات کو سننے کی بجائے ہمیں دبانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ہم اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہیں گے”۔ کمیٹی نے مطالبات میں حکمرانوں کی مراعات ختم کرنے، مہاجرین کے لیے 12 نشستیں ختم کرنے، اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس پر رائلٹی کی ادائیگی شامل کی ہے، جو آئینی ترمیمات طلب کرتے ہیں۔ انہوں نے 15 اکتوبر کو نئی تحریک کا اعلان کیا ہے، جبکہ شہریوں، خاص طور پر خواتین اور نوجوانوں، نے مزاحمت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
حکومتی وفد، جس میں وفاقی وزراء رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، طارق فضل چوہدری، سردار یوسف، اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف شامل ہیں، مظفرآباد پہنچ چکا ہے اور مذاکرات کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ “ہم 90 فیصد مطالبات پر اتفاق کر چکے ہیں، لیکن چند آئینی مسائل پر وقت درکار ہے”۔ تاہم، مظاہرین نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، اور ایکس پر ہیش ٹیگز کے ذریعے عالمی توجہ حاصل کی جا رہی ہے۔ ایک پوسٹ میں لکھا گیا: “ریاست طاقت سے ہمیں خاموش نہیں کر سکتی، ہمارا حق ہے کہ ہماری آواز سنی جائے۔”
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے پولیس کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “طاقت کا استعمال مسائل کو حل کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے، فوری انکوائری اور پرامن مذاکرات کی ضرورت ہے”۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج 2024 کی مہنگائی مخالف تحریک کا تسلسل ہے، جو اب سیاسی اصلاحات اور خودمختاری کی طرف بڑھ چکا ہے۔ اگر حکومت نے دانش مندی سے بات چیت نہ کی تو تشدد کا دائرہ بڑھ سکتا ہے، جو خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے۔ عالمی برادری سے بھی مداخلت کی اپیل کی جا رہی ہے تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جا سکے۔