اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

برطانیہ موبائل فون چوری میں یورپ میں سرفہرست، لندن سب سے بڑا مرکز قرار

pickpocketing

برطانیہ موبائل فون چوری میں یورپ میں سرفہرست، لندن سب سے بڑا مرکز قرار

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکہ کی انشورنس کمپنی سکوائر ٹریڈ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق موبائل فون چوری کے واقعات میں برطانیہ یورپ بھر میں سرفہرست ہے، جہاں صرف لندن میں موبائل فون چوری کی نصف سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں۔ دی ٹائمز اخبار نے جمعہ کو اس تحقیق کی تفصیلات شائع کی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ بھر میں موبائل فون چوری کے ہر 10 میں سے تقریباً 4 واقعات برطانیہ سے تعلق رکھتے ہیں، حالانکہ اس کمپنی کے کل یورپی صارفین میں برطانوی شہریوں کا حصہ صرف 10 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق جون 2021 سے اب تک برطانیہ میں موبائل فون چوری کے دعووں میں 425 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جن میں سے 42 فیصد صرف لندن سے ہیں۔ اس لحاظ سے لندن یورپ میں موبائل فون چوری کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔ برمنگھم دوسرے نمبر پر ہے۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گرمیوں کی تعطیلات، میلے، کرسمس اور سال نو کے موقع پر ان وارداتوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

ان انکشافات کی تائید برطانیہ کے کرائم سروے فار انگلینڈ اینڈ ویلز کے اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق دسمبر 2024 تک ختم ہونے والے سال میں “تھیفٹ فرام پرسن” یعنی جسم سے اشیاء کی چوری کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا، جن کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 83 ہزار رہی۔ ان وارداتوں میں سب سے زیادہ چوری ہونے والی چیز موبائل فون رہا۔ اس کے علاوہ کمپیئر دی مارکیٹ نامی ادارے کی تحقیق کے مطابق سال 2024 میں صرف لندن میں 70 ہزار سے زائد موبائل فون چوری ہوئے، جو ہفتہ وار اوسطاً 1349 فون بنتے ہیں۔ اگر تمام چوری شدہ فونز کو نئے ماڈلز سے تبدیل کیا جائے تو لندن کے عوام کو مجموعی طور پر 70 ملین پاؤنڈ کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق صرف ویسٹ منسٹر اور ویسٹ اینڈ کے علاقے لندن میں ہونے والی تمام موبائل فون چوریوں کا تقریباً 40 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ پولیس کا اندازہ ہے کہ موبائل فون چوری برطانیہ میں جرائم پیشہ گروہوں کے لیے سالانہ 50 ملین پاؤنڈ سے زائد کی آمدنی کا ذریعہ بن چکی ہے۔

چوریوں میں اس غیرمعمولی اضافے کی ایک ممکنہ وجہ برطانیہ میں جاری معاشی دباؤ اور عام لوگوں کے معیارِ زندگی میں بگاڑ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ نے رواں سال کہا تھا کہ برطانیہ نہ تو ایک ہائی ویج (زیادہ تنخواہوں والا) ملک ہے اور نہ ہی ہائی ویلفیئر (سماجی تحفظ) کا، جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کم اجرت اور ناکافی سوشل سپورٹ کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کو غیرقانونی ہجرت کے مسئلے کا بھی سامنا ہے، اور حکام نے بعض چوریوں اور جرائم میں اضافے کو ایسے گروہوں سے جوڑا ہے جن میں غیر دستاویزی افراد شامل ہوتے ہیں اور جو مجرمانہ نیٹ ورکس کے ذریعے سرگرم ہیں۔ یہ تمام عوامل مل کر برطانیہ خصوصاً لندن کو یورپ میں موبائل فون چوری کے ایک بڑے مرکز میں تبدیل کر چکے ہیں، جہاں عوامی مقامات، ریلوے اسٹیشنز اور سیاحتی علاقوں میں ہر لمحہ ہوشیار رہنا اب ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔

Share it :