چین کا برازیل کے حق میں امریکہ کے “دباؤ آمیز” رویے پر سخت ردعمل
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
چین نے امریکہ کی جانب سے برازیل پر عائد کیے گئے بھاری تجارتی محصولات کو “ناقابلِ برداشت” قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ سزا دینے والا اقدام سابق برازیلی صدر جائیر بولسونارو کے خلاف قانونی کارروائی اور برازیل کی برکس گروپ میں سرگرم شمولیت کے جواب میں اٹھایا۔ چینی وزیرِ خارجہ وانگ ای نے بدھ کے روز جاری بیان میں کہا کہ بیجنگ “برازیل کی خودمختاری اور قومی وقار کے تحفظ کی بھرپور حمایت کرتا ہے” اور “برازیل کے اندرونی معاملات میں بلاجواز بیرونی مداخلت کی مخالفت کرتا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین، برازیل کے ساتھ مل کر “دباؤ آمیز تجارتی اقدامات کے خلاف مزاحمت” اور خصوصاً برکس کے پلیٹ فارم کے ذریعے گلوبل ساؤتھ ممالک کے درمیان تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔
وانگ ای نے برازیلی صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا کے سینیئر مشیر سیلسو اموریم سے ٹیلیفون پر گفتگو میں کہا کہ “ٹیکسز کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی، عالمی تجارتی تنظیم کے اصولوں کی پامالی، غیر مقبول اور غیر پائیدار اقدام ہے”۔ واضح رہے کہ جولائی کے آخر میں ٹرمپ نے برازیل سے آنے والی تمام درآمدات پر ۵۰ فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی، جسے انہوں نے امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ ٹرمپ نے خاص طور پر بولسونارو کے خلاف مقدمات پر اعتراض کیا ہے، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے ۲۰۲۲ کے انتخابی نتائج کے بعد بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔
ٹرمپ بریکس گروپ کے بھی سخت ناقد رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد ڈالر کی عالمی طاقت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حالانکہ گروپ کی کوئی مشترکہ کرنسی نہیں اور ارکان کے درمیان زیادہ تر لین دین قومی کرنسیوں میں ہوتا ہے۔ برازیلی صدر لولا نے ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ “دنیا کے بادشاہ نہیں ہیں” اور برکس ممالک کا ایک اجلاس بلا کر امریکہ کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی بنانے کی تجویز پیش کی۔ ٹرمپ نے صرف برازیل کو ہی نہیں بلکہ چین اور بھارت کو بھی تجارتی دباؤ کا نشانہ بنانے کا عندیہ دیا ہے۔ بدھ کے روز انہوں نے کہا کہ چین پر بھی ایسے ہی محصولات عائد کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ بھارت پر ۲۵ فیصد ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔ اس سے قبل انہوں نے دونوں ممالک پر یوکرین تنازع کے دوران روسی تیل درآمد کرنے پر بھی تنقید کی تھی۔ ماسکو نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی خودمختار ملک اپنے تجارتی شراکت دار آزادانہ طور پر منتخب کرنے کا حق رکھتا ہے۔