چین نے روسی دھاتوں کی خریداری میں نمایاں اضافہ کردیا،امریکی میڈیا
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
چین نے مغربی ممالک کی پابندیوں کے بعد روس سے دھاتوں کی درآمد میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے۔ تازہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، چین اب روسی دھاتوں کا سب سے بڑا خریدار بنتا جا رہا ہے، جس کی بڑی وجہ روس کی جانب سے مغربی منڈیوں سے ہٹ کر ایشیا کی طرف رخ کرنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے مئی کے درمیان چین نے روس سے ایلومینیم کی درآمد میں تقریباً چھپن فیصد اضافہ کیا، جو دس لاکھ ٹن کے قریب پہنچ گئی۔ اسی عرصے میں تانبے کی خریداری میں چھیاسٹھ فیصد اور نکل کی درآمدات میں دو گنا سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اگرچہ روس کی بڑی دھات ساز کمپنیاں جیسے روسال اور نورلسک نکل مغربی پابندیوں کی براہ راست زد میں نہیں ہیں، لیکن انہیں عالمی تجارتی منڈیوں تک رسائی میں شدید رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ رواں سال بہار میں امریکہ اور برطانیہ نے روسی دھاتوں کو لندن اور شکاگو کی بڑی تجارتی منڈیوں میں شامل کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ اس سے قبل امریکہ نے روسی ایلومینیم مصنوعات پر دو سو فیصد ٹیکس لگا دیا تھا، جبکہ کینیڈا نے روسی ایلومینیم اور فولاد پر مکمل پابندی نافذ کر دی تھی۔
یورپی اتحاد نے بھی روسی ایلومینیم پر تدریجی پابندیاں عائد کرتے ہوئے دو لاکھ پچھتر ہزار ٹن کی حد مقرر کی ہے، جو فروری دو ہزار چھببیس تک برقرار رہے گی۔ کریملن نے ان پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان کے منفی اثرات ان ہی ممالک پر واپس پڑیں گے جنہوں نے یہ اقدامات کیے ہیں۔ ان پابندیوں کے بعد عالمی منڈی میں دھاتوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور ایلومینیم کی قیمت میں دہائیوں بعد سب سے بڑی چھلانگ ریکارڈ کی گئی ہے۔ روس نے اپنی برآمدات کا رخ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کی طرف موڑ لیا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق روسی کمپنی نورلسک نکل نے گزشتہ برس کے دوسرے نصف سے چین کو دھاتوں کی برآمدات بڑھا دی ہیں اور اب وہ چین کی ایک بڑی سنہری کمپنی کے ذیلی ادارے کے ساتھ مل کر تانبے کی ترسیل میں مزید اضافہ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روسی تانبہ کمپنی اور دیگر ادارے بھی چین کو دھاتیں فراہم کر رہے ہیں۔ نورلسک نکل کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ تانبہ پگھلانے کے کچھ یونٹ چین منتقل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ مالیاتی پابندیوں سے بچا جا سکے۔ یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ روس اپنی معیشت کے لیے متبادل راستے تلاش کر چکا ہے اور ایشیائی منڈیوں، خصوصاً چین، کو نئی اقتصادی شراکت داری کے طور پر اختیار کر رہا ہے۔