اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

چین کی روسی گیس پائپ لائن منصوبے میں دلچسپی

Gas Stove

چین کی روسی گیس پائپ لائن منصوبے میں دلچسپی

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد چین نے روس کے مجوزہ “پاور آف سائبیریا 2” گیس پائپ لائن منصوبے میں گہری دلچسپی لینا شروع کر دی ہے، جس کے ذریعے شمالی روس سے قدرتی گیس کی فراہمی منگولیا کے راستے چین تک ممکن ہو سکے گی۔ وال اسٹریٹ جرنل نے یہ رپورٹ بیجنگ کے ذرائع کے حوالے سے جاری کی ہے۔ یہ مجوزہ میگا پائپ لائن سالانہ 50 ارب مکعب میٹر قدرتی گیس روس سے چین منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران-اسرائیل تنازع نے چینی حکومت میں مشرق وسطیٰ سے تیل و گیس کی فراہمی کے استحکام پر شدید خدشات پیدا کر دیے ہیں، جس کے بعد پالیسی ساز متبادل ذرائع توانائی کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔

چین اس وقت اپنی گیس کا تقریباً 30 فیصد قطر اور متحدہ عرب امارات سے مائع قدرتی گیس ایل این جی کی صورت میں حاصل کرتا ہے، جو آبنائے ہرمز کے راستے آتی ہے — یہ وہ گزرگاہ ہے جہاں سے دنیا کا 20 فیصد تیل گزرتا ہے، اور جسے ایران نے امریکی حملوں کے جواب میں بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔

مزید برآں، چینی چھوٹی “ٹی پوٹ” ریفائنریاں ایرانی خام تیل پر انحصار بڑھا چکی ہیں، اور ماہرین کے مطابق ایران کی 90 فیصد سے زائد تیل برآمدات اب چین کو ہی جاتی ہیں، باوجود اس کے کہ امریکہ نے ایرانی تیل کی بیرونی فروخت کو روکنے کے لیے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ چینی گیس ریسرچ ادارے رِسٹاد کے سربراہ وی شیونگ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی شدت نے آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش کے سنگین نتائج کو اجاگر کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ راستہ بند ہوتا ہے تو چین کو مائع قدرتی گیس کی فراہمی میں شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے، اور اسے دیگر ذرائع کی جانب رخ کرنا پڑے گا۔

تجزیہ کاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الوقت جنگ بندی ہو چکی ہے، تاہم حالیہ بحران نے بیجنگ کو توانائی کی فراہمی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ چین روس سے خام تیل کی درآمدات میں بھی اضافے کا خواہاں ہے، جو پہلے ہی اپنی خام تیل کی پانچویں حصے کی فراہمی چین کو کر رہا ہے۔ دوسری جانب روس، مغربی پابندیوں اور یورپی طلب میں کمی کے تناظر میں اپنی توانائی برآمدات کو متنوع بنانے کے لیے اس منصوبے کو ترجیح دے رہا ہے۔

بیجنگ میں اس منصوبے کو ایک اسٹریٹجک اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کے ذریعے توانائی کے ذرائع کو متنوع بنایا جا سکے گا اور بڑھتی ہوئی جغرافیائی غیر یقینی صورتحال کے مقابل توانائی کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ کارنیگی روس-یوریشیا مرکز کے ڈائریکٹر اور چین-روس تعلقات کے ماہر الیگزینڈر گابیویف کے مطابق: “فوجی صورتحال میں عدم استحکام اور غیر یقینی پن نے چینی قیادت کو یہ باور کرایا ہے کہ ایک مستحکم زمینی پائپ لائن سپلائی میں جغرافیائی فائدے ہیں — اور روس اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق چین، ایسے وقت میں جب وائٹ ہاؤس بیجنگ اور ماسکو کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے، روس کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ سخت مغربی پابندیوں کے باوجود چین اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون میں اضافہ جاری ہے، اور دوطرفہ تجارت کا حجم 2024 میں 245 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔

Share it :