روسی صدر کے حالیہ دورہ بھارت پر چین کا ردعمل آگیا

Putin Putin

روسی صدر کے حالیہ دورہ بھارت پر چین کا ردعمل آگیا

ماسکو(انٹرنیشنل ڈیسک)
چین نے کہا ہے کہ روس، بھارت اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات نہ صرف تینوں ممالک کے مفاد میں ہیں بلکہ عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان گو جی آکُن نے یہ مؤقف روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے بھارت روانگی سے قبل انڈیا ٹوڈے کو دیے گئے انٹرویو کے تناظر میں بیان کیا۔ ترجمان کے مطابق تینوں ممالک ’’ابھرتی ہوئی معاشی طاقتیں‘‘ اور ’’گلوبل ساؤتھ کے بنیادی رکن‘‘ ہیں، اس لیے ان کا قریبی تعاون عالمی نظام کے لیے مثبت اثرات رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا: “تینوں ممالک کے اچھے تعلقات نہ صرف ان کے اپنے مفاد میں ہیں بلکہ خطے اور دنیا کے امن، سلامتی اور خوشحالی کے لیے بھی ضروری ہیں۔” گو جی آکُن نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین نئی دہلی کے ساتھ طویل مدتی اور اسٹریٹجک بنیادوں پر تعلقات کو بہتر بنانے پر تیار ہے۔ واضح رہے کہ 2020 کی سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ رہا، تاہم گزشتہ برس سے کشیدگی بتدریج کم ہو رہی ہے۔ صدر پوتن نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ چین اور بھارت روس کے ’’قریبی دوست‘‘ ہیں اور ماسکو ان کے ساتھ تعلقات کو ٹیکنالوجی سمیت ہر شعبے میں نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتا ہے۔
انہوں نے چین اور بھارت کے ’’عقلی اور متوازن‘‘ رویے کو بھی سراہا، جنہوں نے یوکرین تنازع پر مغربی پابندیوں کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور اس کے برعکس روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ کیا۔

اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے 2024 تک روس اور چین کی باہمی تجارت تقریباً دوگنی ہو کر 240 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جبکہ اسی مدت میں روس اور بھارت کی تجارت میں بھی چھ گنا سے زیادہ اضافہ ہوا، جو 2024 میں 65 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی۔ پوتن کے دورۂ بھارت کے دوران دونوں ممالک نے 2030 تک دو طرفہ تجارت کو 100 ارب ڈالر تک لے جانے کے ہدف کی تجدید کی، اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امید ظاہر کی کہ یہ ہدف اس سے پہلے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ اس برس سربیا کے شہر تیانجن میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں پوٹن، مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے بھی ملاقات کی تھی، جہاں رکن ممالک نے شی جن پنگ کی نئی عالمی گورننس پالیسی کی حمایت کی۔ اس پالیسی میں بین الاقوامی قوانین کے احترام، کثیرالجہتی کے فروغ، دوہرے معیار کے خاتمے اور تمام بڑے چھوٹے ممالک کی مساوی شمولیت پر زور دیا گیا ہے۔

Advertisement