خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

ماسکو میں چینی چائے دانیوں کی نمائش — روایت، ثقافت اور دوستی کا سنگم

ماسکو میں چینی چائے دانیوں کی نمائش — روایت، ثقافت اور دوستی کا سنگم

رپورٹ: اشتیاق ہمدانی
ماسکو میں چینی ثقافت اور قدیم روایت کو اجاگر کرتی ایک منفرد نمائش جاری ہے جس نے اہلِ ذوق کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ چینی چائے دانیوں کی یہ نمائش 25 ستمبر سے 9 نومبر تک موزے آف اورینٹ (میوزیم آف ایسٹ) میں جاری رہے گی۔ نمائش کا سب سے دلچسپ پہلو روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا کی ذاتی کلیکشن ہے، جس میں شامل نایاب چائے دانیاں ان کے خاندان کی نسلوں سے وابستہ ہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے زخارووا نے بتایا:
“یہ چائے دانی ہمارے خاندان کے میل جول کی علامت ہے۔ میری نانی کے دور سے یہ چائے دانی ہماری نسلوں کو ایک ساتھ بٹھاتی رہی ہے۔ اگرچہ اس کا نلکا ٹوٹ گیا، لیکن یہ آج بھی ہمارے لیے ایک خاص یادگار اور محبت کی علامت ہے۔”

اس موقع پر نمائندہ خصوصی اشتیاق ہمدانی نے زخارووا سے سوال کیا آپ کو کیا لگتا ہے کہ چینی چائے دانیاں صرف ایک برتن ہیں یا یہ دنیا کو جوڑنے والی ایک ثقافتی طاقت بھی ہیں؟
زخارووا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: یہ صرف برتن نہیں بلکہ دوستی، خاندان اور روایت کا ایک پل ہیں۔ جس طرح یہ چائے دانیاں صدیوں سے لوگوں کو ایک میز پر جمع کرتی ہیں، اسی طرح آج بھی یہ مختلف قوموں کو قریب لا سکتی ہیں۔ یہی ان کی اصل خوبصورتی ہے۔”

چینی چائے دانیوں کی روایت سولہویں صدی سے جڑی ہے جب چین کے صوبہ جیانگ سو کے شہر یِشنگ میں پہلی بار جامنی مٹی سے یہ چائے دانیاں بنائی گئیں۔ اس مٹی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ گرمی کو دیر تک برقرار رکھتی ہے اور چائے کی خوشبو کو محفوظ کر لیتی ہے۔ چینی معاشرت میں چائے دانی محض ایک گھریلو برتن نہیں بلکہ فن، فلسفہ اور تہذیب کی علامت ہے۔ قدیم زمانے میں اہلِ دانش اپنی نشستوں میں انہی چائے دانیوں کے گرد گفتگو کرتے تھے۔ آج بھی چین میں چائے پینا صرف ایک مشروب نہیں بلکہ ایک روحانی اور سماجی تجربہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ چینی چائے دانیاں دنیا بھر میں ٹی کلچر کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ یہ نہ صرف ذائقہ بڑھانے کا ذریعہ ہیں بلکہ صبر، سکون اور ہم آہنگی کی علامت بھی سمجھی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ برتن چینی شناخت اور ثقافتی ورثے کا اہم ستون بن چکے ہیں۔

اس نمائش نے روس اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے میں ایک نرم قوت کا کردار ادا کیا ہے۔ زخارووا نے کہا کہ ثقافت ہمیشہ سفارت کاری کو مضبوط بناتی ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی بھی چائے کلچر سے جڑی ایک تاریخی حقیقت رکھتی ہے۔ پاکستان کو چین کے ساتھ سی پیک اور تجارتی تعاون کے ساتھ ساتھ ثقافتی تبادلے بھی قریب لاتے ہیں۔ مستقبل میں روس، پاکستان اور چین کے مشترکہ ثقافتی منصوبے اس خطے میں دوستی کو مزید فروغ دیں گے

اس نمائش نے روس اور چین کے تعلقات کو مزید مضبوط کرنے میں ایک نرم قوت کا کردار ادا کیا ہے۔ زخارووا نے کہا کہ ثقافت ہمیشہ سفارت کاری کو مضبوط بناتی ہے۔
پاکستانی صحافی اور اور صدائے روس کے ایڈیٹر اشتیاق ہمدانی نے ماریہ زاخارووا سے سوال کیا کہ موجودہ عالمی کشیدگی کے ماحول میں وہ ثقافتی موضوعات کے لیے وقت کیسے نکال پاتی ہیں؟ اس پر زاخارووا نے جواب دیا کہ مشکل حالات میں تخلیقی عمل ہی انسان کو جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ انہوں نے ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران بھی فن اور تخلیق نے لوگوں کو امید دی۔ انہوں نے وکٹر بوتا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قید اور مشکلات کے باوجود اس نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے نئی زندگی پائی، جو اس بات کی علامت ہے کہ انسان اندر سے کتنا مضبوط ہو سکتا ہے۔

نمائش میں شریک افراد کے مطابق یہ تقریب صرف چائے یا برتنوں تک محدود نہیں بلکہ روس اور چین کے دوستانہ تعلقات کی علامت بھی ہے۔ اشتیاق ہمدانی نے کہا:
“یہ تقریب ایک ثقافتی پل کی مانند ہے جو مختلف قوموں کو قریب لاتی ہے اور باہمی احترام کو فروغ دیتی ہے۔” یہ نمائش روس، چین اور دنیا کے درمیان دوستی، ثقافتی ہم آہنگی اور تخلیقی سوچ کے ذریعے امن کے پیغام کو اجاگر کرنے کی ایک شاندار کوشش قرار دی جا رہی ہے

شئیر کریں: ۔