Connect with us

کالم و مضامین

تعمیر وطن(سکول اینڈ کالجز) ابیٹ آباد

Published

on

تعمیر وطن(سکول اینڈ کالجز) ابیٹ آباد

شاہ نواز سیال

پاکستان میں یہ تصور زد عام ہے کہ یہاں تعلیمی نظام میں کئ خرابیاں موجود ہیں کئ طرح کے تعلیمی ادارے علم تقسیم کر رہے ہیں ان میں سے کئ خالص گوروں کی نمائندگی کرتے ہیں مثلًا بیکن ہاؤس وغیرہ کچھ ادارے ایسے ہیں جو آئین پاکستان کی تابعداری کرنے والے افراد کے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں مثلًا سرکاری سکول و کالجز وغیرہ گاؤں, قصبوں میں آج بھی ٹاٹ وغیرہ پر بیٹھ کر بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ علاقے زیادہ تر جنوبی پنجاب, دیہی سندھ, کچھ بلوچستان کے علاقے, دوردراز خبیر پختونخواہ کے علاقے وغیرہ, پنجاب میں حکومت پنجاب کے تعاون سے چلنے والے پیف کے سکولوں میں جہاں متوسط طبقے کے بچے زیر تعلیم ہیں وہیں پیف سکول سسٹم میں پڑھانے والے اساتذہ کا استحصال عروج پر ہے ادارے مالکان نے دس, بارہ ہزار روپے میں اساتذہ رکھے ہوتے ہیں باقی ان کی تنخواہ ہڑپ کر جاتے ہیں –

پنجاب میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ باقی صوبوں کی نسبت یہاں تعلیمی معیار قدرے بہتر ہے پرائیویٹ سکول و کالجز میں پڑھانے والے اساتذہ کو معقول تنخوائیں دی جاتی ہیں مگر یہ بات تو سراسر غلط ہے اساتذہ کی پرائیویٹ مالکان جس قدر تذلیل و استحصال کر رہے ہیں یہ جرم ناقابل معافی ہے مگر حکمرانوں کے کانوں تک جوں نہیں رینگتی میرے خیال میں ہمارا سیاسی نظام اپاہج ہوچکا ہے –
اکثر سیاست دان علم کے مراکز سے پیسہ کما رہے ہیں پاکستان میں اکثر تعلیی ادارے انڈسٹری بن چکے ہیں جن کا کام صرف پیسے بٹورنا ہے مجھے وہ زمانہ یاد آتا ہے جب انسان غاروں سے جنگلوں میں آیا پھر جنگلوں سے ویرانیوں میں آیا بستیاں اور شہر آباد کیے جب جنگلوں میں آباد تھا تو بچے کی تربیت والدین کرتے تھے بچہ جیسے بڑا ہوتا تھا وہ مکمل طور پر اس قابل ہوجاتا کہ اپنی ذمہ دار ی خود اٹھا سکے پھر فیکٹری اور کارخانے کا زمانہ آیا اس کے لیے تعلیمی ادارے بنائے گئے بچوں کی تربیت کی ذمہ دار ی تعلیمی اداروں کے سپرد کی گئ کہ تعلیمی ادارے تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کی اخلاقی تربیت بھی کریں گے –
یہ اخلاقی تربیت پاکستان میں کچھ ادارے کر رہے ہیں ان میں تعمیر وطن سکول اینڈ کالجز ایجوکیشن پاکستان (ابیٹ آباد) کر رہا ہے یہ ادارہ پاکستان کے بہترین اداروں میں سے ایک ہے اپنے عمدہ تعلیمی معیار کی وجہ سے اب مانسہرہ, راولپنڈی اور اسلام آباد میں اپنی تعلیمی اور فلاحی خدمات پیش کر رہا ہے اس ادارے میں پاکستان کے تمام کلچر سے وابستہ بچے زیر تعلیم ہیں سالانہ تقسیم انعامات کی تقریب میں بچوں نے جس طرح مختلف ثقافتوں کی ترجمانی کی قابل ستائش ہے بچوں کی پرفارمنس –
3,دسمبر 2022ء کو سالانہ تقسیم انعامات کے حوالے سے ایک خوبصورت تقریب سجائی گئ کروڑوں روپے کی انعامی رقم نقد تقسیم کی گئ , ہزاروں کی تعداد میں گولڈ میڈلز نمایاں پوزیشز حاصل کرنے والے بچوں میں تقسیم کیے گئے, سیکڑوں اعزازی شیلڈز تقسیم کیے گئے ,لیپ ٹاپ بچوں میں تقسیم کیے گئے, چودہ (14)ٹکٹ حج کے تقسیم کیے گئے اور اس کے علاوہ پچاس (50)عمرہ کے ٹکٹ تقسیم کیے گئے –
تقریب کی مہمان خصوصی محترمہ حلیمہ سعید صاحبہ بانی تعمیر وطن سکول اینڈ کالجز ایجوکیشن پاکستان تھیں, پرنسپل ملک احسن سعید, ڈائریکڑ جنرل ملک محسن سعید نے اساتذہ اور بچوں میں انعامات تقسیم کیے –
یہ ادارہ مستحق بچوں میں سالانہ کروڑوں روپے کے سکالرشپ دے رہا ہے میرے لیے یہ سب کچھ بڑا حیران کن تھا کہ میرے خیال میں یہ پاکستان کا واحد ایسا ادارہ ہے کہ جو صییح معنوں میں اپنی تعلیمی اور فلاحی ذمہ دار یاں ادا کر رہا ہے –
اگر آپ دنیا کے پانچ بہترین تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو تعمیر وطن سکول اینڈ کالجز ایجوکیشن پاکستان ان مطابق رکھتا ہے –
دنیا کے پانچ بہترین نظامِ تعلیم میں جاپان،جنوبی کوریا،ہانگ کانگ،سنگاپور اور فِن لینڈ شامل ہیں امریکی تحقیقی ادارے نیشنل سنٹر آن ایجوکیشن اینڈ اکانومی( این سی ای ای) اور پولینڈ کی ماہر تعلیم کیرولینا ولک کے تحقیقی مقالے اور ان ممالک کی وزارت تعلیم کی ویب سائٹس سے مدد لی گئی ہے۔
جاپان کا تعلیمی نظام دنیا بھر میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ جاپانی معاشرے کی بنیاد تعلیم پر استوار ہے۔جاپانی نظام تعلیم کسی مغربی ملک سے ماخوذ ہے نہ وہ کسی اور ایشیائی ملک سے متاثر ہوکر تشکیل دیا گیا ہے۔یہ نظام مکمل طور پر جاپانی اقدار،کلچر اور نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس نظام کا مطمع نظر معاشرے میں نمبر گیم کی دوڑ کے بجائے علم و دانش کے کلچر کو قائم کرنا ہے۔
بچے پبلک ٹرانسپورٹ اور بسوں کے ذریعے گھر سے سکول جاتے ہیں۔ جاپان میں جونیر کلاسوں کے تمام طلباء سکول یونیفارم پہنتے ہیں۔ نہ وہ سکول سے چھٹی کرتے ہیں اور نہ لیٹ ہوتے ہیں۔ طالب علم کمرا جماعت میں خاموشی سے اور انفرادی طور پر پڑھتے ہیں۔ کلاس میں نظم و ضبط (ڈسپلن) کا بالخصوص خیال رکھا جاتا ہے۔
جاپان کی گریجوایشن خواندگی 94 فیصد ہے جو ایک رکارڈ ہے۔

Continue Reading

کالم و مضامین

اپنے دکھوں کا ہم نے تماشہ نہیں کیا !

Published

on

شاہ نواز سیال

ریاست کے بڑے ستونوں نے غور کرنے کے لئے بھی بندے رکھے ہوتےہیں رہی بات فکر کی تو انہیں کوئی فکرپہلے سے ہے ہی نہیں۔ وہ فکر سے مراد صرف فکرمندی لیتے ہیں۔ فکرمندی عام لوگوں اور غریب لوگوں کا کام ہے۔ ”بڑے“ لوگ صرف ”کارنامہ“سر انجام دیتے ہیں کام نہیں کرتے۔ کارنامہ یہ کہ وہ حکمران بن گئے , سیاستدان اور قاضی بن گئے نہ وہ عبرت پکڑتے ہیں نہ ذوق رکھتے ہیں۔ جب ذوق کے ساتھ شوق کا لفظ لگتا ہے تو وہ چونکتے ہیں۔ ذوق و شوق نجانے انہوں نے کیا کیا شوق پال رکھے ہیں۔
خیر پارٹی لیڈرز شپ کی کچن کیبنٹ کے لوگ جانتے ہیں مگر وہ صرف پارٹی لیڈرز کو خوش کے لئے میڈیا پر بات کرتے ہیں۔ ذمہ دار صرف یہ بتائیں کہ کیا مہنگائی نہیں ہے؟۔ جب ملک میں ان کی حکومت تھی تو کیا اپوزیشن کے لوگ ان کے خلاف جلوس نہیں نکالتے تھے-
موسمی پرندے آج کل جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر کوئی دانش ور ضرور تبصرہ کرے !
منتخب پارلیمان کی آپس کی رشتہ داریوں کا کوئی بتائے, اسمبلی میں یہ سب دوست تھے اور کبھی کبھی وہاں بھی جاتے تھے جہاں سہولت ملتی تھی ۔ جملہ بازی صرف اس لئے کی جا تی ہے کہ لوگوں میں جوش اور مدھوش قائم و دائم رہے ۔ مہنگائی ریلی , دھرنا ریلی اصل میں یہ اقتدار ریلی ہوتی ہے, اقتدار کی کئ قسمیں ہوتی ہیں سب قسموں کا تعلق شہرت سے ہے اس لیے یہ تماشہ ہر روزلگا رہتا ہے -یہاں طارق متین کی غزل کے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں :

اپنے دکھوں کا ہم نے تماشہ نہیں کیا

فاقے کیے مگر کبھی شکوہ نہیں کیا

بے گھر ہوئے تباہ ہوئے در بدر ہوئے

لیکن تمہارے نام کو رسوا نہیں کیا

گو ہم چراغ وقت کو روشن نہ کر سکے

پر اپنی ذات سے تو اندھیرا نہیں کیا

اس پر بھی ہم لٹاتے رہے دولت یقیں

اک پل بھی جس نے ہم پہ بھروسہ نہیں کیا

اس شخص کے لیے بھی دعا گو رہے ہیں ہم

جس نے ہمارے حق میں کچھ اچھا نہیں کیا

حالانکہ احترام سبھی کا کیا مگر

ہم نے کسی کو قبلہ و کعبہ نہیں کیا

تمام بڑے ستونوں کےپروردہ لوگوں کی حکومتیں مرکز اور صوبوں میں رہیں کوئی ان سے سوال تو کرے کہ آپ نے دودھ کی نہریں کہاں کہاں بہائیں ؟ بابا یہ ملک آپ کا ہے آپ ٹیکس دیتے ہیں آپ جزبات میں آکے مزید قربانیوں سے جذباتی افراد کو نہ نوازیں ملک کے لیے آپ کا صبر کیا کسی قربانی سے کم ہے اور اب جو صورت حال ہے اس کا ذمہ دار کون ہے ؟کون اپنے مفادات کے لیے کتنا استعمال ہوا؟ کس کے ابھی مفادات رہتے ہیں ؟کون مزید آپ کے جزبات سے کھیلنا چاہتا ہے ہمیں اپنی خبر لینا ہوگی استعمال کرنے والے لوگوں کا ماضی گواہ ہے کہ یہ لوگ صرف حکومت اور جمہوریت کو گڈمڈ کرتے ہیں کہ کسی پانچ سال اپنی حکومت کے نکال لیں لوگوں کو آپس میں لڑوا کے جس طرح مکا دکھانے والے حکمران نے حکومت اور ریاست کو گڈمڈ کیا تھا۔ ریاست اور جمہوریت کا برائے نام جمہوری حکمرانوں نے بیڑا غرق کر دیا ہے۔
عمران خان صرف یہی بتا دیں کہ اسلام آباد میں کس رنگ کی دودھ کی نہریں بہاآئے ہیں تاکہ لوگ ایک بار پھر انہیں نہروں میں نہانے کی ایک اور ناکام کوشش کرلیں-
میری تمام ذمہ داروں سے گذارش ہے کہ وہ عوام سے صاف نیت کے ساتھ ملک کی خاطر پکا وعدہ کریں کہ وہ اپنی دولت بیرون ملک سے پاکستان لے آئیں گے- مہنگائی کم ہو جائے گی, پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے مگر مجھے امید ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ صرف بیانات دیں گے۔ منتخب ہوکر اسمبلی میں یہ تماشا لگائیں گے اور اس طرح پانچ سال گزر جائیں گے مگر اس بار عوام کو امید نہیں ہے کہ 2024 میں ان کے حق میں فیصلہ ہو جائے گا۔
کچھ طاقت ور لوگ ماضی میں اسمبلی میں تو نہیں کہیں اور قانون منظور کراتے تھے جس کی وجہ نظام مفلوج ہوا –
نابالغ سیاست دان ہاتھ ملا کے خوش تھے کہ خوب تماشا لگایا ہے۔
ایسے کھڑے تھے جیسے تصویر بنوانے کے لئے کوئی زور لگاتا ہے مگر بڑے خانوادوں کو اپنی جگہ بنانا آتی ہے۔ سنا ہے بڑے بڑے خانوادے عنقریب وفاداریاں بدل رہے ہیں ۔
سناہے اب جماعت اسلامی عوامی جماعت بنتی جا رہی ہے اگر ایساہے تق اچھی بات ہے۔
ماضی میں لاہور سے عمران خان ,علیم خان کو پسند کرتے تھے وہ تحریک انصاف کے جلسوں اور جلوسوں کے لئے ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہوتے تھے اب لاہور اس پائے کا بندہ نہیں ۔
مہنگائی کی وجہ سے جلوس نکلتے رہیں گے,عوام ایسا کرکے کیا کرلے گی ؟حکومت صرف ان جلوسوں کا مقابلہ نہیں صرف مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں – اصل کوشش تو یہ ہونا چاہئے کہ مہنگائی کم کی جائے۔ لوگوں کے واویلے کو تو حکمران خاطر میں نہیں لاتے مگر اب کچھ کرنا پڑے گا۔
پہلے کہتے تھے کہ لوگ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں باہر نہیں نکلتے, عمران خان کا اصل مقصد دوبارہ تنگ گلی سے وزیراعظم بننا ہے۔ اب تو وہ مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں۔ پھر مہنگائی کم کرنے کے لئے کیا کریں گے؟ یا پہلے جیسا راگ الاپیں گے !اب لگتا مشکل ہے خیر یہاں کبھی کچھ ناممکن نہیں رہا –

Continue Reading

ٹرینڈنگ