ڈنمارک کی وزیراعظم کا مسلمانوں پر مزید پابندیوں کا مطالبہ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ڈنمارک کی وزیراعظم میٹے فریڈرکسن نے ملک میں اسلامی روایات اور عبادات پر مزید پابندیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض مذہبی سرگرمیاں خواتین پر دباؤ ڈالنے اور معاشرتی کنٹرول کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں نافذ کیے گئے نقاب پر پابندی کے قانون میں ایسی خامیاں موجود ہیں جن کے باعث یہ پابندی اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں لاگو نہیں ہوتی۔ انہوں نے اس استثنا کو “ایک بڑی غلطی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو اب جامعات اور تعلیمی اداروں تک توسیع دی جانی چاہیے۔
وزیراعظم فریڈرکسن کے مطابق آپ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن جمہوریت کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ جب آپ اسکول میں ہوتے ہیں تو آپ کا مقصد تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے، عبادت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسکولوں اور جامعات سے نماز کے کمرے ختم کیے جائیں، کیونکہ یہ حقیقت میں تفریق اور مذہبی دباؤ کا باعث بن رہے ہیں، چاہے ان کا مقصد شمولیت ہی کیوں نہ ہو۔ وزیراعظم کی یہ رائے اس کمیشن برائے بھولی ہوئی خواتین کی جدوجہد کی سفارشات کے بعد سامنے آئی ہے، جس نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ نقاب پر پابندی کو تعلیمی اداروں تک توسیع دی جائے۔
ڈنمارک میں نقاب اور برقع پر دو ہزار اٹھارہ سے پابندی عائد ہے، جس کے تحت پہلی خلاف ورزی پر ایک ہزار کرونر (تقریباً پونے دو سو امریکی ڈالر) اور بار بار خلاف ورزی پر دس ہزار کرونر تک کا جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پابندی کو “خواتین کے حقوق کی صریح خلاف ورزی” قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ فرانس نے دو ہزار گیارہ میں سب سے پہلے عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کی تھی، جس کے بعد آسٹریا، بیلجیم، بلغاریہ، اٹلی، نیدرلینڈز اور جرمنی کے بعض حصوں سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی ایسی پابندیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار بائیس میں پرائمری اسکولوں میں حجاب پر پابندی کی تجویز بھی دی گئی تھی، لیکن عوامی احتجاج کے بعد دو ہزار تئیس میں وہ تجویز واپس لے لی گئی تھی۔