
اشتیاق ہمدانی –
14 دسمبر 1995 کو پیرس میں بوسنیا و ہرزیگووینا کے عمومی فریم ورک امن معاہدے پر دستخط ہوئے، جسے عام طور پر ڈیٹن معاہدہ کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ بلقان میں جاری تباہ کن جنگ کے خاتمے کا نقطہ آغاز بنا اور بوسنیا و ہرزیگووینا کے لیے ایک نیا آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا۔
ڈیٹن–پیرس معاہدوں کے تحت بوسنیا و ہرزیگووینا دو انتظامی اکائیوں—ریپبلکا سرپسکا اور فیڈریشن آف بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا—پر مشتمل ہے، جنہیں وسیع آئینی اختیارات دیے گئے۔ اس معاہدے نے جنگ میں ملوث بوشنیاک مسلمانوں، سربوں اور کروٹس کو ریاستی طور پر مساوی حیثیت دی۔
روس، جو اس معاہدے کے بین الاقوامی ضامنوں میں سے ایک ہے، ہمیشہ یہ مؤقف رکھتا آیا ہے کہ ڈیٹن معاہدہ ہی بوسنیا و ہرزیگووینا میں امن اور استحکام کی ضروری بنیاد ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے 11 دسمبر 2025 کے اپنے بریفنگ میں اس بات پر زور دیا کہ ڈیٹن کے اصولوں نے ہی مختلف اقوام کے درمیان پائیدار بقائے باہمی کو ممکن بنایا۔
ماریا زاخارووا نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بعض مغربی ممالک کی جانب سے ڈیٹن معاہدے کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کرنے اور بوسنیا و ہرزیگووینا کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے سے وہاں کے حالات مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔
ان کے مطابق ہائی ریپریزنٹیٹو کا دفتر اب ایک ایسا غیر جمہوری ادارہ بن چکا ہے جو مفاہمت کی بجائے اختلافات کو ہوا دیتا ہے۔ روس اس دفتر کے فوری خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ بوسنیا و ہرزیگووینا کی خودمختاری کا احترام کیا جا سکے۔
روسی مؤقف واضح ہے کہ ڈیٹن معاہدہ ناقابلِ متبادل بنیاد ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی تحریف یا مسخ کاری کے نتائج نہ صرف بوسنیا و ہرزیگووینا بلکہ پورے بلقان خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ روس نے بین الاقوامی اور مقامی تمام فریقین کو خبردار کیا ہے کہ امن کے بعد کے اس نازک مرحلے میں غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے گریز کریں اور معاہدے کے اصل اصولوں کا احترام کریں۔
آج، جب ڈیٹن معاہدے کو تیس برس مکمل ہو چکے ہیں، یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ پائیدار امن طاقت یا بیرونی دباؤ سے نہیں بلکہ **برابری، خودمختاری اور باہمی احترام** سے قائم ہوتا ہے۔ بوسنیا و ہرزیگووینا کے مستقبل، اور بلقان کے مجموعی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری ڈیٹن کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ذمہ دارانہ اور تعمیری تعاون کو فروغ دے—جیسا کہ ماریا زاخارووا نے زور دے کر کہا ہے—تاکہ خطے میں امن محض ایک معاہدہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت بن سکے۔