یورپی رہنماؤں کا یوکرین امن عمل پر محتاط ردعمل، پوتن پر اعتماد سے گریز
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یورپی رہنماؤں نے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے جاری کوششوں پر امید تو ظاہر کی ہے، تاہم روسی صدر ولادیمیر پوتن پر اعتماد کے حوالے سے شدید خدشات بھی سامنے آئے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں روسی صدر کی نیت پر سنجیدہ شکوک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “جب تک ولادیمیر پوتن کو یقین ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، وہ امن کی طرف نہیں آئیں گے۔ ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ یوکرینی علاقے پر قبضہ کرنا، یوکرین کو کمزور کرنا اور اسے روسی اثر و رسوخ کے تحت لانا ہے۔ یہ سب کے لیے بالکل واضح ہے۔ فن لینڈ کے صدر الیگزینڈر اسٹب نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ وہ بظاہر مخلصانہ طور پر جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ “ہم صدر پوٹن کے ساتھ معاملہ کر رہے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ ان کے بنیادی مقاصد تبدیل نہیں ہوئے۔” انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پوتن کے بنیادی مقاصد میں روس کو دوبارہ عالمی طاقت بنانا، مغرب کو تقسیم کرنا اور یوکرین کی خودمختاری کو تسلیم نہ کرنا شامل ہیں۔
الیگزینڈر اسٹب نے یہ بھی نشاندہی کی کہ موجودہ حالات میں روزانہ کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک یا زخمی ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق یورپی ممالک کی کوشش ہے کہ سفارتی راستے سے اس تنازع کا حل نکالا جائے اور روس کی جارحیت کو روکا جائے۔ جرمنی کے چانسلر فریڈرک میرٹز نے بتایا کہ صدر پوتن نے آئندہ دو ہفتوں میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ وہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے لیے انتظامات کر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس سلسلے میں آمادگی پائی جاتی ہے۔ تاہم میرٹز نے محتاط لہجے میں کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ آیا پوتن کے پاس اتنی ہمت ہوگی کہ وہ اس سربراہی اجلاس میں شامل ہوسکیں۔