اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

ٹرمپ اور ایلن مسک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے

Trump, Musk

ٹرمپ اور ایلن مسک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ٹیکنالوجی کے ممتاز کاروباری شخصیت ایلن مسک کے درمیان اختلافات میں حالیہ دنوں میں نمایاں شدت دیکھنے میں آئی ہے، جس سے امریکی سیاست اور کاروباری حلقوں میں نئی بحث جنم لے چکی ہے۔امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں شخصیات کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی جب ایلن مسک نے صدر ٹرمپ کی ایک اہم داخلی پالیسی، جسے “بگ بیوٹیفل بل” کے نام سے جانا جاتا ہے، پر تنقید کی۔ اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے ایلن مسک پر سخت تنقید کی اور انہیں “خودغرض اور غیر وفادار” قرار دیا۔ ٹرمپ کے حامیوں کے مطابق، مسک نے صدر کی انتخابی کامیابی کا جزوی کریڈٹ لینے کی کوشش کی، جس سے پارٹی میں اختلافات مزید بڑھ گئے۔

ریپبلکن پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، کچھ قانون ساز اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا انہیں صدر ٹرمپ کا ساتھ دینا چاہیے یا ایلن مسک کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جو دونوں ہی قدامت پسند حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ مسک نے اس تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کے صدارت کی مدت میں ابھی تقریباً ساڑھے تین سال باقی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اختلافات مستقبل میں بھی جاری رہ سکتے ہیں۔

یہ تنازعہ ریپبلکن پارٹی کے اندر ایک نادر اور ڈرامائی تصادم کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں دو بااثر قدامت پسند شخصیات آمنے سامنے ہیں۔ یہ صورتحال پارٹی کی یکجہتی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتی ہے، خاص طور پر جب دونوں شخصیات کے حامیوں کے درمیان وفاداری کا امتحان ہو۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کشیدگی آنے والے امریکی صدارتی انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے، کیونکہ ایلن مسک نہ صرف دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں بلکہ ان کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کروڑوں فالورز ہیں، جن پر ان کی رائے اثر انداز ہوتی ہے۔ اگر وہ کھل کر کسی امیدوار کے خلاف یا حمایت میں مہم چلاتے ہیں تو یہ انتخابی نتائج پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ تنازع محض بیانات کی حد تک رہے گا یا اس کے سیاسی اور معاشی اثرات بھی سامنے آئیں گے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ ٹرمپ اور مسک کے درمیان اختلافات اب محض رائے کا فرق نہیں رہے بلکہ ذاتی دشمنی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔

Share it :