شاہ نواز سیال
حالیہ دنوں میں پاکستان کا صوبہ پنجاب شدید سیلابی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے پنجاب کے تین بڑے دریاؤں میں (ستلج ،چناب اور راوی) شدید طغیانی، موسلا دھار بارشیں اور پڑوسی ملک بھارت کی طرف سے چھوڑا گیا پانی زمینی مخلوق کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل ہڑپ کررہا ہے جس کی وجہ سے انسانی مسائل پیدا ہورہے ہیں جو انسانی و حیوانی زندگی، زرعی رقبے اور معاشی سرگرمیاں کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں ـ
صوبہ پنجاب جو پاکستان کا زرعی مرکز ہے اس میں زرخیز زمینیں، کھڑی فصلیں اور انسانی آبادیاں پانی کی لپیٹ میں آ چکی ہیں متاثرہ علاقوں میں نہ صرف انسانی زندگی مفلوج ہو چکی ہے بلکہ لاکھوں افراد اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں رزق، رہائش اور روزگار سب کچھ پانی کی نظر ہوگیا ہے۔
قدرتی آفات نے قدرتی وسائل اور قدرتی تخلیقات کو اپنی طرف سیچنا شروع کردیا ہے ہر طرف خوف و ہراس پیھل چکا ہے انسانی رزق کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات کا رزق بھی پانی کی خوراک بنتا جارہا ہے پاکستان کے دل پنجاب کو سیلاب نے ہرطرف سے گھیر چکا ہے سیلابی ریلے پنجاب کے زرخیز شہروں اور زیر کاشت فصلوں پر مسلسل حملہ آور ہورہے ہیں انہیں حملوں نے متاثرہ خاندانوں کی خوشیوں کو خاک میں ملا دیا ہے –
قارئین! آج ہم پنجاب کے تین بڑے دریاؤں کے ماخذات، ان کے راستے اور ان کی تباہ کاریوں کا تفصیل سے ذکر کریں گے اگر ہم دریائے راوی کے ماخذ کی بات کریں تو دریائے راوی بھارتی کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع چمبا کے پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ کے برف سے ڈھکے پہاڑوں سے نکلتا ہے دریائے راوی پاکستانی ضلع نارووال کے قریب جیسر کے مقام پر پاکستانی حدود میں داخل ہوتا ہے اس کے بعد یہ دریا سیالکوٹ اور نارووال کے درمیان سے بہتا ہوا آگے مریدکے اور لاہور کے شمال سے گزر کر لاہور شہر کے قریبی علاقوں (شاہدرہ وغیرہ) سے ضلع قصور کے مشرقی کنارے سے ہیڈ بلوکی بیراج پر پہنچتا ہے۔
دریائے راوی قصور اور اوکاڑہ کے قریب سے گزرنے کے بعد ضلع جھنگ کی تحصیل احمد پور سیال کے قریب ہیڈ تریموں کے پاس دریائے چناب میں شامل ہو جاتا ہے۔
بھارتی کے علاقے جسر سے پاکستانی ضلعی حدود نارووال میں داخل ہونے والے دریائے راوی نے ضلع نارووال کے ساتھ لاہور شہر کے شاہدرہ کی مقامی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے کئی رہائشی کالونیاں سیلاب کی نظر ہوگئیں ہیں کروڑوں روپے کے کاروبار ٹھپ ہوگئے اسی دریائے راوی ضلع قصور کی مقامی آبادیوں کو اپنے حصار میں لیتے ہوئے ضلع اوکاڑہ کی جانب منہ کھولے پیش قدمی کر رہا ہے-
قارئین! اگر ہم اسی طرح دریائے چناب کے ماخذ کی بات کریں تو دریائے چناب بھارتی کی ریاست ہماچل پردیش کے پہاڑیوں میں واقع دو ندیوں کے ملاپ سے بنتا ہے-
1. چندر ندی
2. بھاگا ندی
یہ دونوں ندیاں ہماچل پردیش اور مقبوضہ علاقے لداخ اور لاہول اسپیٹی کے علاقے تندی کے مقام پر ملتی ہیں جہاں سے اسے “چندر بھاگا” کہا جاتا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آ کر اس دریا کو دریائے”چناب” کہا جاتا ہے جموں، ڈوڈہ، رام بن اور جموں ضلع سے گزرتے ہی اکھنور کے مقام پر میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہوئے پاکستانی حدود ضلع سیالکوٹ کے قریب ہیڈ مرالہ کے مقام پر پہنچتا ہے ۔
پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دریائے چناب درج ذیل پنجاب کے شہروں اور مقامات سے گزرتا ہوا سیالکوٹ اور گجرات کے درمیان سے گزرتا ہوا وزیرآباد، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاؤالدین کے قریب سے خوشاب ،سرگودھا فیصل آباد ،چینیوٹ اور جھنگ کے قریب آجاتا ہے ہیڈ تریموں کے بعد دریائے راوی بھی دریائے چناب میں آ کر شامل ہو جاتا ہے حالیہ دنوں سے دریائے چناب بھارتی علاقے اکھنور سے پاکستانی ضلعی حدود سیالکوٹ میں داخل ہوکر ہیڈ مرالہ کے اطراف میں بڑے پیمانے تباہی پھیلاتے ہوئے انسانی زندگیوں اور انسانی خوراک کو نگلتے ہوئے وزیر آباد ،گوجرانوالہ،گجرات ،چینوٹ اور جھنگ کے مضافاتی علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے جنوبی پنجاب کے دل ضلع ملتان کی جانب آبی مخلوقات کی سربراہی کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے دریائے چناب سے ضلع ملتان کے شمال مغربی حصوں کو شدید سیلاب کا خطرہ لاحق ہے کیونکہ ہیڈ تریموں بیراج پر دریائے راوی اور دریائے چناب دونوں ملکر ملتان کے ہیڈ محمد والا کی طرف اپنا خوف پھیلاتے ہوئے ملتان کی جانب بے خوف سفر ہوکر محو سفر ہیں جس سے زیر کاشت رقبہ، مقامی دیہی آبادیاں اور شہر کا مغربی حصہ سنگین ترین صورتحال کا سامنا کر رہا ہے افواج پاکستان ،مقامی انتظامیہ اور عوامی نمائندے بار بار اپیل کر رہے ہیں کہ الرٹ شدہ علاقے خالی کردیں تیزی سے نقل مکانی کی جارہی ہے لاکھوں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے دریائے چناب کے مشرق کی جانب ضلع ملتان اور مغرب کی جانب ضلع مظفر گڑھ کا بڑا حصہ شدید ترین متاثر ہوگا ضلع ملتان کے متاثرہ علاقوں میں ملتان کی چاروں تحصیلیں شامل ہیں مگر جو تحصیل سب سے زیادہ خطرہ کی زد میں ہے وہ تحصیل جلالپور پیر والہ ہے کیونکہ جہاں سے تحصیل کی شمال مغربی حدود شروع ہوتی ہے وہاں سے دریا کا بیر شروع ہو جاتا ہے مثلآ کھاکھی پونٹہ ،جہان پور،کیکری، رپڑی ، شاہ پور ،بیٹ کیسر ،مولوی عطا ،وچھہ سندیلہ ،عنایت پور،بیٹ کیچ شمالی،بیٹ کیچ جنوبی،لاڑیں ، ناچنگ ،کرمووالی ،خان بیلہ ،شہنی میانی اور بیٹ مغل کے علاقوں کے ساتھ ساتھ دیگر علاقے بھی شامل ہیں-
قارئین! اسی طرح اگر ہم دریائے ستلج کے ماخذ کی بات کریں تو دریائے ستلج برصغیر کے سب سے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے یہ انڈس ریور سسٹم کا حصہ ہے تاریخی طور پر اسے “شٹودر” بھی کہا جاتا ہے یہ پانچ دریاؤں میں سب سے لمبا دریا ہے دریائے ستلج تبت کے علاقے میں کائلاش پہاڑوں کے قریب راکش تال جھیل سے نکلتا ہے تبت سے نکلنے کے بعد یہ دریا بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے پہاڑوں سے گزر کر بھاکڑا ڈیم اور نانگل بیراج کے بعد یہ بھارتی پنجاب کے ضلع فیروزپور کے قریب میدانوں سے پاکستانی ضلعی حدود قصو کے مقام فاضلکا اور گنڈا سنگھ والا کے قریب سے پاکستانی حدود میں داخل ہوتا ہے پھر دریائے ستلج قصور اور اوکاڑہ کے اضلاع سے گزرتا ہوا بہاولنگر ، بہاولپور،لودھراں اور ملتان کی حدود میں داخل ہوتا ہے اس کے بعد یہ دریا مظفرگڑھ کی آخری حدود ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
قارئین! اگر ہم حالیہ دنوں کی سیلابی صورت حال کی بات کریں تو دریائے ستلج بھارتی علاقے ہیڈ گنڈا سنگھ والا سے ہوتا ہوا پاکستانی ضلع قصور اور اوکاڑہ کے علاقوں میں انسانی زندگیوں اور انسانی رزق کو نگلتے ہوئے ضلع بہاولنگر اور ضلع بہاول پور کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر نقصانات کرتے ہوئے ضلع ملتان کی آخری تحصیل جلالپور پیر والہ کی حدود میں شامل ہوکر اس نے تحصیل کی بہت بڑی آبادیاں اپنی لپیٹ میں لے لیں ہیں ان آبادیوں میں کوٹلہ چاکر ،موضع جھابو،نوراجہ بھٹہ ،بیٹو واہی ،ڈیپال ،میانی جھنڈا ،موضع موتھا شمالی اور جنوبی،بھنڈا وینس ،شجاعت پور،موہانہ سندیلہ ،کوٹ امام دین اور درآب پور شرقی اور غربی کے شامل ہیں یہ تمام علاقے سیلابی طغیانی کا شدید شکار ہیں ابھی پانی کے دونوں دریاؤں میں بڑے ریلے باقی ہیں دریائے چناب اور دریائے ستلج کے یہ دونوں دریا جلالپور پیر والہ کے اطراف میں واقع ہیں جلالپور پیر والہ کے بعد یہ دونوں ہیڈ پنجند سے گزریں گے-
پورے پنجاب کے ساتھ ساتھ
تحصیل جلالپور پیر والہ آج ایک ایسے المیہ سے دوچار ہے جس کی گونج نہ صرف مقامی بلکہ قومی سطح پر سنی جانی چاہیے کیونکہ سیلاب جیسی قدرتی آفت کسی بھی وقت کسی علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے مگر جب یہ آفات پسماندگی کے بوجھ تلے دبے ہوئے علاقوں پر حملہ آور ہوتی ہیں تو تباہی کے اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
جلالپور پیر والہ کے جنوب مشرق میں دریائے ستلج اور شمال مغرب میں دریائے چناب واقع ہے آج کل یہی دونوں دریا جو کبھی زراعت اور زندگی کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے آج اس تحصیل کے لیے خوف کی علامت بن چکے ہیں موسمی تغیرات اور سیلابی ریلوں کی بدولت یہ علاقہ ایک بار پھر ایک سنگین بحران کا شکار ہو گیا ہے ۔
دریائے چناب اور دریائے ستلج کی شدید طغیانی نے تحصیل کا حلقہ پی پی 224 کے متعدد مواضعات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ ہوچکیں ہیں جو مقامی آبادی کی معاشی زندگی کا واحد ذریعہ تھیں کسان صرف اپنے کھیتوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے خوابوں کو بہتا دیکھ رہے ہیں کئی خاندان بے گھر ہو چکے ہیں
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر جلالپور پیر والہ کو آفت زدہ علاقہ قرار دے کر ہنگامی بنیادوں پر امداد فراہم کرے ایک طویل المیعاد منصوبہ بندی اب ناگزیر ہو چکی ہے جس میں دریاؤں کے حفاظتی پشتے، جدید نکاسی آب کا نظام اور عوامی آگاہی کے لیے مستقل اقدامات شامل ہوں۔