فرانس میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر گیا، لاکھوں گھرانے بل ادا کرنے سے قاصر

electric switch electric switch

فرانس میں توانائی کا بحران شدت اختیار کر گیا، لاکھوں گھرانے بل ادا کرنے سے قاصر

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
فرانس میں توانائی کی غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران ایک تہائی سے زائد گھرانوں کو بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ یہ انکشاف قومی توانائی محتسب (Ombudsman) کی ہدایت پر کیے گئے ایک تازہ سروے میں سامنے آیا۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سردیوں کے آغاز سے قبل ہی ہزاروں خاندان ادائیگیوں میں تاخیر یا نادہندگی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ منگل کے روز جاری ہونے والی اس تحقیق کے مطابق 36 فیصد گھرانوں کو توانائی کے بلوں کی ادائیگی میں دشواری پیش آئی، جب کہ 35 فیصد خاندان گزشتہ موسمِ سرما میں ٹھنڈے گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ زیادہ تر افراد نے توانائی کی بچت کے لیے اپنی روزمرہ عادات میں تبدیلی کی — جیسے کہ آف پیِک اوقات میں برقی آلات کا استعمال، گرم پانی کے نظام کی خودکار ترتیب، اور حرارت کے اوقات میں کمی۔ رپورٹ کے مطابق 85 فیصد فرانسیسی شہریوں نے کہا کہ توانائی کے اخراجات اب ان کے بجٹ کا نمایاں حصہ بن چکے ہیں، جو 2007 کے بعد بلند ترین سطح ہے۔

یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب فرانس معاشی جمود اور مالی عدم استحکام سے گزر رہا ہے۔ حکومت نے بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے کثیر مقدار میں اخراجات میں کمی کی تجویز دی ہے، جس سے پارلیمان میں اختلافات بڑھ گئے اور سیاسی بحران جنم لے چکا ہے۔ وزیرِاعظم فرانسوا بایرو نے ستمبر میں اعتماد کا ووٹ ہارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے مجوزہ 2026 کے بجٹ پلان میں 40 ارب یورو سے زائد کی بچت شامل تھی، جو عوامی سطح پر انتہائی غیر مقبول ثابت ہوا۔ صدر ایمانوئل میکرون نے بعد ازاں سباستیان لیکورنُو کو نیا وزیرِاعظم مقرر کیا، تاہم انہوں نے بھی ’’حکومت کرنے کے لیے ضروری حالات کی عدم موجودگی‘‘ کے باعث مختصر مدت کے لیے استعفیٰ دے دیا تھا۔ بعد ازاں انہیں دوبارہ عہدہ دے دیا گیا۔ لیکورنُو نے اعلان کیا ہے کہ وہ 17 ارب یورو کے اخراجات میں کمی اور 14 ارب یورو کے نئے ٹیکسوں پر مبنی بجٹ کو ہر حال میں نافذ کریں گے، اگرچہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ پالیسی غربت اور عوامی دباؤ میں مزید اضافہ کرے گی۔ ستمبر اور اکتوبر میں پورے فرانس میں ہزاروں افراد نے ریلیاں اور ہڑتالیں کیں، جن میں حکومت کے کفایتی اقدامات کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ ادھر روسی خفیہ ادارے ایس وی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر میکرون ملک کے اندر بڑھتے ہوئے سماجی و معاشی دباؤ سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے یوکرین میں ممکنہ فوجی مداخلت کی تیاری کر رہے ہیں۔ روسی دعوے کے مطابق میکرون ’’تاریخی شخصیات‘‘ جیسے نپولین بوناپارٹ یا سویڈن کے بادشاہ چارلس دوازدہم کی طرح روس کے خلاف کامیابی حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ اپنی سیاسی ساکھ بحال کر سکیں

Advertisement