اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

یورپی یونین کا روس پر توانائی اور بینکاری شعبوں میں پابندیوں کا اعلان

Kaja Kallas

یورپی یونین کا روس پر توانائی اور بینکاری شعبوں میں پابندیوں کا اعلان
ماسکو (صداۓ روس)
یورپی یونین نے روس کے خلاف یوکرین تنازع کے سلسلے میں پابندیوں کا 18واں پیکیج منظور کر لیا ہے، جس میں ماسکو کے توانائی اور بینکاری شعبوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس کے مطابق، یہ پیکیج روس کے خلاف اب تک کا سب سے سخت قرار دیا جا رہا ہے۔

پہلے اس پیکیج کی منظوری سلواکیہ کی مخالفت کے باعث مؤخر ہو گئی تھی، تاہم یورپی کمیشن کی جانب سے گیس اور تیل کی دستیابی کی یقین دہانی کے بعد براتسلاوا نے مزید مخالفت کو “غیر تعمیری” قرار دیتے ہوئے منظوری دے دی۔

کالاس نے برسلز میں ہونے والے یورپی سفیروں کے اجلاس کے بعد X (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں کہا: “ہم نے ابھی روس کے خلاف اپنی سب سے طاقتور پابندیوں میں سے ایک کی منظوری دے دی ہے۔”

روس نے ان یکطرفہ اقدامات کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ: “ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایسی پابندیاں غیر قانونی ہیں۔ ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں۔”

پیسکوف نے مزید کہا کہ روس نے کافی حد تک ان پابندیوں کے خلاف مدافعت حاصل کر لی ہے اور معیشت ان حالات میں کام کرنے کی عادی ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق یہ معاشی پابندیاں “دو دھاری تلوار” ہیں، جو نہ صرف روس بلکہ خود یورپی ممالک کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔

یورپی سفارتی ذرائع کے مطابق اس تازہ پیکیج میں:

22 روسی بینکوں اور روسی سرمایہ کاری فنڈ (RDIF) کے ساتھ مالی لین دین پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائنز کے استعمال پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، جو 2022 میں تخریب کاری کا شکار ہوئیں تھیں اور اب تک ناکارہ ہیں۔

روسی تیل کی قیمت کی حد جو پہلے 60 ڈالر فی بیرل تھی، اب ایک نیا “ڈائنامک میکانزم” نافذ کیا گیا ہے جو مارکیٹ قیمت سے 15 فیصد کم ہو گا۔

مزید 105 بحری جہاز شامل کیے گئے ہیں ان جہازوں کی فہرست میں جو روسی تیل کو یورپی پابندیوں کے باوجود ترسیل میں استعمال ہو رہے تھے۔ اب اس “شیڈو فلیٹ” کے تحت 400 سے زائد جہاز یورپی بندرگاہوں میں داخلے اور خدمات سے محروم ہوں گے۔

پابندیوں کے نتیجے میں روس نے اپنی توانائی کی برآمدات کو ایشیائی ممالک کی طرف موڑ لیا ہے، جہاں چین اور بھارت اس وقت سب سے بڑے خریدار ہیں۔

یورپی یونین کے بعض رکن ممالک جیسے ہنگری اور سلواکیہ ان پابندیوں پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اقدامات یورپی معیشت کو نقصان پہنچاتے ہیں، جبکہ ماسکو اور کیف کے درمیان جاری تنازع کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

Share it :