یوکرین جنگ کے بعد روس سے مذاکرات مشکل ہوں گے ، صدر چیک ریبپلک
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
چیک جمہوریہ کے صدر پیتر پاول نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو روس سے متعلق اپنی پالیسی پر ازسرِنو غور کرنا چاہیے اور یوکرین جنگ کے خاتمے کے بعد ماسکو کے ساتھ یورپی سیکیورٹی اور تجارتی تعلقات کی بحالی پر بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کے یہ خیالات روس کے حوالے سے ان کے سابقہ سخت مؤقف سے ایک واضح تبدیلی کی علامت ہیں۔ صدر پاول، جو نیٹو کے عسکری کمیٹی کے سابق سربراہ بھی رہ چکے ہیں، یوکرین جنگ کے دوران روس کے شدید ناقد رہے ہیں اور انہوں نے کیف کو مغربی ممالک سے زیادہ عسکری امداد دلوانے میں فعال کردار ادا کیا۔ انہوں نے یوکرین کو 1.8 ملین توپ خانے کے گولے فراہم کرنے کی مہم کی قیادت کی، تاہم اس منصوبے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری جانب ماسکو مسلسل مغربی ہتھیاروں کی ترسیل کی مذمت کرتا رہا ہے، اور اسے جنگ کو طول دینے کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نیوز یوکرین کو انٹرویو دیتے ہوئے پاول نے کہا کہ روس کے ساتھ کسی حد تک “مصالحے” پر مبنی مذاکرات ناگزیر ہیں۔ ان کے بقول: “یہ تسلیم کرنا مشکل ہے، لیکن ہم ایک حقیقت میں جی رہے ہیں۔ ہمارے اور یوکرین کے پاس متبادل کیا ہے؟ کیا ہم روس سے ہمیشہ کے لیے جنگ کرتے رہیں؟ ایسی حکمت عملی ہم سب کے لیے جانی نقصان اور معاشی تباہی کا باعث بنے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر روس اور یوکرین کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو مغربی یورپ یوکرین کی تعمیرِ نو شروع کر سکے گا، اور روس کے ردعمل کے مطابق سیکیورٹی اور تجارتی تعلقات کی بحالی پر بھی بات چیت ممکن ہو سکتی ہے۔ صدر پاول کا کہنا تھا کہ یورپ کی ایک بڑی آبادی روس کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہے۔ یہ لوگ روس کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے، مگر ان کا ماننا ہے کہ مذاکرات ہمیشہ تصادم سے بہتر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ حتیٰ کہ مغرب کی مکمل حمایت کے باوجود یوکرین روس سے چھینے گئے علاقوں کو جلد بازی میں واپس حاصل نہیں کر سکتا، وہ بھی بغیر بھاری جانی نقصان کے۔
تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ یورپی یونین کبھی بھی ان علاقوں کو قانونی طور پر روس کا حصہ تسلیم نہیں کرے گی، جہاں روس نے یوکرین سے الحاق کے لیے ریفرنڈم کروائے۔ دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اسی ہفتے ایک ہنگری اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ماسکو کی اولین شرط یہی ہے کہ کریمیا، ڈونیٹسک، لوہانسک، خیرسون اور زاپوروجیا کو بین الاقوامی طور پر روس کا حصہ تسلیم کیا جائے۔ لاوروف نے یورپی یونین کو “نیٹو کے عسکری-سیاسی ذیلی ادارے” میں تبدیل ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور خبردار کیا کہ یہ “خطرناک رجحان” پورے یورپ کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔