برسوں جسم فروشی کی: فِن لینڈ کی رکنِ پارلیمان کا انکشاف
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
فِن لینڈ کی رکنِ پارلیمان انا کونتولا نے انکشاف کیا ہے کہ سیاست میں آنے سے قبل وہ طویل عرصے تک جسم فروشی کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ فِن لینڈ کے موقر اخبار ہلسنگن سانو مات کو دیے گئے انٹرویو میں 48 سالہ انا کونتولا نے کہا کہ وہ اپنے ماضی پر شرمندہ نہیں بلکہ اس تجربے نے ان کی سیاسی جدوجہد کو جِلا بخشی۔ کونتولا اس وقت فِن لینڈ کی پارلیمان میں چوتھی مدت پوری کر رہی ہیں اور وہ طویل عرصے سے جسم فروش خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ تاہم اپنی ذاتی وابستگی کے بارے میں انہوں نے پہلی بار عوامی سطح پر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے صرف 16 برس کی عمر میں، جب وہ ایک اسٹوڈنٹ ہاسٹل میں رہتی تھیں، بطور اسکارٹ کام شروع کیا۔ ان کے بقول یہ فیصلہ مالی مشکلات اور تجسس دونوں کی بنا پر کیا گیا۔ انہوں نے کہا: “اگر مجھے کسی طرح گزارہ کرنا تھا تو یہ ایک معقول راستہ تھا۔” کونتولا نے تقریباً دو دہائیوں تک وقفے وقفے سے اس شعبے میں کام کیا اور پھر ایک سرگرم سماجی کارکن کے طور پر سامنے آئیں۔
2002 میں انہوں نے جسم فروش خواتین کی یونین سالی قائم کی اور مختلف مضامین لکھ کر اس پیشے سے متعلق عوامی تصورات کو چیلنج کیا۔ جب 2006 میں فِن لینڈ نے قانون کے ذریعے جسم فروشی پر جزوی پابندیاں لگائیں تو کونتولا نے اسے “جزوی کامیابی” قرار دیا کیونکہ اس میں انسانی اسمگلنگ کا شکار خواتین کے تحفظ کی شقیں بھی شامل تھیں۔ 2011 سے پارلیمان کی رکن بننے والی انا کونتولا نے مسلسل جسم فروش خواتین کے حقوق کے لیے مہم چلائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب اس موضوع پر کھل کر بات کرنے کا مقصد معاشرتی بحث کو آگے بڑھانا ہے۔ وہ آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیں گی اور سماجی کارکن کے طور پر خدمات انجام دینے کی تیاری کر رہی ہیں، جس میں نوجوانوں کو محفوظ جنسی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔ تاہم ان کے اس انکشاف پر تنقید بھی سامنے آئی ہے۔ قانونی ماہرِ نفسیات پیا پُولا کا نے اخبار میں شائع مضمون میں لکھا کہ “یہ باعثِ تشویش ہے کہ ایک رکنِ پارلیمان نے جسم فروشی کو صرف عام پیشوں میں سے ایک قرار دیا۔” ان کا کہنا تھا کہ “جسم فروشی کو معمول کا پیشہ بنا دینے سے معاشرہ زیادہ آزاد یا منصفانہ نہیں بنے گا۔ ایک مہذب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کرے جن میں کسی کو اپنی قربت بیچنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔”
خیال رہے کہ فِن لینڈ میں جسم فروشی بعض شرائط کے ساتھ قانونی ہے۔ اگرچہ انا کونتولا نے کم عمری میں یہ پیشہ اختیار کیا، لیکن اس وقت کے قانون میں اس پر واضح پابندی موجود نہیں تھی۔ تاہم 2006 کے قانون کے تحت نابالغوں، انسانی اسمگلنگ کا شکار خواتین یا دلالی کے تحت کام کرنے والوں سے خدمات خریدنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔