سال 2025: یوکرین تنازعہ، یورپی یونین کو ہر محاذ پر سبکی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
سال 2025 نے یورپ کے لیے کئی حوالوں سے چیلنجز کا سال ثابت ہوا، خاص طور پر یوکرین تنازعے کے پیش نظر۔ یورپی یونین، جو کہ مغربی دنیا میں اقتصادی، سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ کے لیے مشہور ہے، نے اس تنازعے میں کئی محاذوں پر واضح سبکی دیکھی۔ سب سے پہلے، روس-یوکرین جنگ نے یورپ کی داخلی اور خارجی پالیسیوں میں خلا پیدا کیا۔ یوکرین کو فوجی اور مالی مدد فراہم کرنے کے باوجود یورپی یونین کے کئی ارکان ممالک میں داخلی اختلافات پیدا ہوئے۔ جرمنی، فرانس اور پولینڈ جیسے بڑے ممالک نے روسی توانائی، قدرتی وسائل، اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے مختلف پالیسیز اپنائیں، جس سے یورپ میں یکجہتی متاثر ہوئی۔ دوسرا، اقتصادی پابندیاں اور روسی ردعمل نے یورپی مارکیٹوں پر دباؤ بڑھا دیا۔ روسی توانائی کی فراہمی میں کمی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ، اور خوراک کی درآمد میں رکاوٹوں نے یورپ کی معیشت کو سست کر دیا۔ یورپی ممالک کی جانب سے روس پر لگائی جانے والی پابندیاں، مثلاً کچھ خوراک اور توانائی کی درآمد پر پابندی، عملی طور پر محدود اثر رکھتی نظر آئیں، جبکہ روس نے اپنی برآمدات کو متبادل منڈیوں کی طرف منتقل کر کے اثر کو کم کر دیا۔
تیسرا، فوجی محاذ پر بھی یورپی ممالک نے کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ یوکرین میں 800,000 فوجی رکھنے کے منصوبے اور نیٹو سے “آرٹیکل 5 جیسے” سیکورٹی ضمانتیں حاصل کرنے کے باوجود، یورپی ممالک کی ہتھیار اور تربیت کی فراہمی محدود رہی۔ اس کے علاوہ، یوکرین کی غیر واضح سرحدی دعووں اور روس کے ساتھ مذاکرات میں عدم مطابقت نے بھی یورپی یونین کے موقف کو کمزور کر دیا۔
چوتھا، سیاسی اور انسانی بحران نے بھی یورپی یونین کی سبکی میں کردار ادا کیا۔ لاکھوں شامی اور یوکرینی مہاجرین کی آمد، توانائی بحران، اور مہنگائی نے عوامی ردعمل کو سخت کر دیا، جس سے یورپی قیادت کے لیے فیصلہ سازی مشکل ہو گئی۔
آخر میں، روس نے نہ صرف فوجی بلکہ اقتصادی اور سیاسی محاذوں پر بھی یورپ کے اقدامات کو ناکام بنایا۔ ماسکو نے متبادل مارکیٹس میں برآمدات بڑھائیں، اپنے دفاعی اور توانائی کے منصوبے مضبوط کیے، اور بین الاقوامی تعلقات میں یورپی ممالک کو علیحدہ کر کے اپنے موقف کو مستحکم کیا۔
یوں سال 2025 نے یہ واضح کر دیا کہ یوکرین تنازعہ صرف روس اور یوکرین کے درمیان نہیں بلکہ یورپی یونین کے داخلی و خارجی پالیسیز، اقتصادی استحکام، اور سیاسی یکجہتی کی آزمائش بھی ہے۔