جرمن جنرل کا یوکرین کو روسی ایئربیسز اور اسلحہ ساز فیکٹریوں پر حملے کا مشورہ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
جرمنی کے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے یوکرین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ روس کے اندر گہرائی میں واقع فضائی اڈوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کو نشانہ بنائے تاکہ محاذِ جنگ پر روسی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ جرمن بری فوج (بُنڈس ویئر) کے میجر جنرل کرسٹیان فروئڈنگ نے یہ بیان فوج کے سرکاری آڈیو پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ میجر جنرل فروئڈنگ، جو یوکرین کو جرمن فوجی امداد کی نگرانی کے ذمہ دار ہیں، نے کہا کہ روسی حملہ آور قوت کو میدانِ جنگ میں آنے سے پہلے ہی غیر فعال کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول آپ روسی فضائی حملہ آور قوتوں کی صلاحیت کو میدان میں آنے سے قبل ہی متاثر کر سکتے ہیں۔ طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی نظاموں سے اُن طیاروں اور فضائی اڈوں کو نشانہ بنائیں جو حملے میں استعمال ہونے والے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کی اسلحہ سازی کی فیکٹریوں کو بھی ہدف بنایا جانا چاہیے۔
فروئڈنگ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ مغربی پابندیوں کے باوجود روس نے ڈرونز، کروز میزائل اور بیلسٹک نظاموں کی پیداوار میں اضافہ کر لیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ از سرِ نو جائزہ لینا ہوگا کہ کیا ہماری معاشی پابندیاں کافی مؤثر رہی ہیں یا نہیں، اور کہاں مزید دباؤ ڈال کر روسی پیداوار کو محدود کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے امریکی ساختہ پیٹریاٹ فضائی دفاعی میزائلوں کی محدودیت کا بھی ذکر کیا۔ اُن کے مطابق روسی ڈرونز کی لاگت تقریباً ۳۰ ہزار سے ۵۰ ہزار یورو تک ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں ایک پیٹریاٹ میزائل کی قیمت ۵۰ لاکھ یورو سے زائد ہے، جو وسائل کے ضیاع کے مترادف ہے۔ “ہمیں ایسے دفاعی نظاموں کی ضرورت ہے جن کی قیمت دو ہزار سے چار ہزار یورو کے درمیان ہو، کیونکہ روس اپنی پیداوار میں مزید اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،” انہوں نے کہا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت نے یوکرین کو امریکی طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، تاہم اس اجازت کے ساتھ کئی شرائط بھی منسلک تھیں۔ اُس وقت میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کیف کو روس کے بڑے فضائی اڈوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ دوسری جانب میجر جنرل فروئڈنگ نے رواں ماہ کے آغاز میں تصدیق کی تھی کہ یوکرین کو جرمنی کے مالی تعاون سے فراہم کیے جانے والے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی پہلی کھیپ جولائی کے اختتام سے قبل پہنچا دی جائے گی۔ تاہم، جرمن حکومت نے تاحال ٹاؤرس میزائل کی فراہمی سے گریز کیا ہے کیونکہ اسے جنگ میں شدت کا باعث تصور کیا جا رہا ہے۔ اسی مہینے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جرمنی پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ “جرمنی ایک مرتبہ پھر خطرناک بنتا جا رہا ہے،” یہ بیان جرمن وزیرِ دفاع بورس پسٹوریس کے اُس بیان کے بعد آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جرمن فوجیوں کو روسی فوجیوں کو “مارنے” کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ روس نے جرمن قیادت پر “تصادم” کو فروغ دینے اور یورپ کو روس کے خلاف جارحانہ طور پر منظم کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔