اقوام متحدہ میں لاوروف کی گرجدار تقریر: یوکرین اور غزہ زیرِ بحث
ماسکو (صداۓ روس)
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے ہفتہ کے روز خطاب کرتے ہوئے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے یوکرین تنازع، غزہ میں جاری خونریز صورتحال، یورپی یونین میں ڈرون حملوں کے خدشات اور عالمی سیاست کے کئی دیگر اہم معاملات پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ تقریر کے بعد انہوں نے ایک بڑی پریس کانفرنس بھی کی جس میں عالمی صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے۔ روسی وزیر خارجہ نے تین روزہ اجلاس کے دوران 35 سے زائد اہم ملاقاتیں کیں، جن میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ہونے والی ملاقات نمایاں رہی۔ دونوں رہنماؤں نے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ الاسکا سمٹ سے حاصل ہونے والے “مثبت پیش رفت” کو دو طرفہ تعلقات کی بحالی میں اہم قرار دیا۔ ملاقات کے پس منظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یوکرین سے متعلق حالیہ بیانات نے بھی عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ انہوں نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے بعد اپنے سوشل میڈیا پیغام میں کہا کہ “کیف اتنی طاقت رکھتا ہے کہ پورا یوکرین واپس لے سکتا ہے، بشرطیکہ یورپی یونین اور نیٹو مکمل حمایت فراہم کریں۔” اس سے قبل ٹرمپ اس مؤقف کے حامی رہے تھے کہ یوکرین کو امن معاہدے کے لیے کچھ علاقائی دعووں سے دستبردار ہونا ہوگا۔
ٹرمپ نے جو بائیڈن کے برعکس کیف کو براہ راست بڑے پیمانے پر امریکی فوجی امداد دینے سے گریز کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ یورپی نیٹو ممالک امریکی ہتھیار خرید کر یوکرینی فوج کو فراہم کریں۔ لاوروف نے اپنی تقریر اور پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ روس ہمیشہ پرامن تصفیے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یوکرین غیرجانبداری، عسکریت سے دستبرداری، نازی ازم کا خاتمہ اور موجودہ زمینی حقائق کو تسلیم کرے۔