جرمنی کا شہریت قوانین میں نرمی کا فیصلہ
برلن انٹرنیشنل ڈیسک
جرمنی کی کابینہ نے بدھ کے روز تارکینِ وطن کے لیے شہریت کا راستہ مختصر کرنے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو دُہری شہریت رکھنے کی اجازت دینے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔ مجوزہ نئے قوانین کی ابھی پارلیمان سے منظوری ضروری ہے۔ ان کے تحت جرمنی میں مقیم غیرملکیوں کی شہریت آٹھ سال کے بجائے پانچ سال بعد ممکن ہو سکے گی۔
نئے منصوبے کے تحت جو غیرملکی جرمن معاشرے سے زیادہ تال میل رکھتے ہیں اور زیادہ مربوط ہیں،انھیں جرمن زبان پر مکمل عبور حاصل ہے تو وہ صرف تین سال کے بعد قومیت حاصل کرسکیں گے۔
ممکنہ نئے شہریوں کو یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ وہ ریاست کی مالی معاونت پر منحصر نہیں ہیں۔ البتہ اس شرط میں بعض مستثنیات بھی ہیں۔اس مسودۂ قانون سے مزید افراد کے لیے دُہری شہریت حاصل کرنے کے دروازے کھلیں گے جن میں جرمنی میں آباد ترک برادری کے لوگ بھی شامل ہیں۔
بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ’’مہمان کارکنوں‘‘ کے طور پر جرمنی میں وارد ہونے والے ترکوں اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے تارکینِ وطن کے لیے شہریت کا راستہ مشکل رہا ہے کیونکہ جرمنی کی دُہری شہریت کا حق عام طور پر یورپی یونین اور سوئس شہریوں تک محدود رہا ہے ،اگرچہ عملی طور پربعض مستثنیات بھی رہی ہیں۔
چانسلر اولاف شُلز کے زیرقیادت مرکزی بائیں بازو کی مخلوط حکومت نے جرمنی میں شہریت سے متعلق قانون سازی میں تبدیلی کا وعدہ کیا تھا۔اس نے 2021 کے آخر میں اقتدار میں آنے کے بعد یہ کہا تھا کہ وہ تارکین وطن کو شہریت دینے کے قانون میں ترامیم کرے گی۔
جرمنی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور وہ مزدوروں کی شدید قِلّت کو دور کرنے کے لیے غیر ملکی کارکنوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور خود کو زیادہ پرکشش منزل بنانے کا خواہاں ہے۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیسر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نیا قانون جرمنی کے’’متنوع معاشرے‘‘ کی عکاسی کرتا ہے۔انھوں نے کہا کہ جرمنی ’’بہترین دماغوں کے لیے عالمی مقابلے‘‘میں ہے اور ممکنہ کارکنوں کو شہریت کے لیے ایک واضح راستہ دے کراپنی پیش کش کو بہتر بنائے گا۔